انسانی کہانیاں عالمی تناظر

وباؤں نے نظام ہائے صحت کو بہتر کرنے کی ضرورت کو اُجاگر کیا ہے: ٹیڈروز

کانگو کے ایک کیمپ میں پانچ سالہ یہ بچہ ایم پاکس کا شکار ہے۔
© UNICEF/Piero Pomponi
کانگو کے ایک کیمپ میں پانچ سالہ یہ بچہ ایم پاکس کا شکار ہے۔

وباؤں نے نظام ہائے صحت کو بہتر کرنے کی ضرورت کو اُجاگر کیا ہے: ٹیڈروز

صحت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیماریوں کے حالیہ پھیلاؤ نے ہر ملک کے لیے اپنے طبی حفاظتی نظام کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت کو واضح کر دیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس ںے یہ بات ماربرگ اور ایم پاکس بیماریاں پھیلنے، کووڈ۔19 کے نتیجے میں تاحال ہفتہ وار 10,000 سے زیادہ اموات اور شام اور ترکیہ میں خوفناک زلزلے کے بعد جاری ہنگامی اقدامات کے پس منظر میں کہی ہے۔

Tweet URL

ان کا کہنا ہے کہ ''مشترکہ طور پر موجودہ حالات تمام ممالک کے لیے اس اہم ضرورت کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ ایسے نظام ہائے صحت تعمیر کریں جو ایسی ہنگامی صورتحال پر کامیابی سے قابو پا سکیں۔

شام کے اپنے حالیہ دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے جاری جنگ نے ملک کے طبی ڈھانچے کو حالیہ زلزلے کے اثرات پر قابو پانے کے قابل نہیں چھوڑا جس میں شہر کے شہر تباہ ہو گئے ہیں اور یہ حالات جنگ کی میراث کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ بیماریاں نظام ہائے صحت کو مضبوط بنانے کی فوری ضرورت کی واضح یاددہانی بھی کراتی ہیں۔

ماربرگ کا خطرہ

ڈبلیو ایچ او استوائی گنی میں ماربرگ بیماری کے حالیہ پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے اس مرض کی فوری نشاندہی کے لیے حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ ماربرگ ایبولا جیسا ایک وائرس ہے جس سے متاثرہ افراد میں اموات کی شرح 88 فیصد ہے۔

اب تک اس بیماری سے نو اموات کی اطلاعات آ چکی ہیں اور ہمسایہ ملک کیمرون اور گیبون میں اس کا کوئی مصدقہ مریض سامنے نہیں آیا۔

انہوں ںے کہا کہ اس بیماری کے خلاف ویکسین تیار کی جا رہی ہیں اور استوائی گنی اس کے کلینیکل ٹرائل کے بارے میں کسی بھی طرح کے متعلقہ فیصلوں میں شامل ہو گا۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈاکٹر عابدی محمود کا کہنا ہےکہ کووڈ۔19 وبا سے حاصل ہونے والے اسباق قریبی ممالک میں اس بیماری کی نگرانی کی کوششوں کو بہتر بنانے کی حالیہ مہم میں پہلے ہی سامنے آ چکے ہیں۔

ایم پاکس: عالمگیر ہنگامی صورتحال

ڈبلیو ایچ او نے ایم پاکس پر قابو پانے کی حالیہ کوششوں اور اس بیماری کے پھیلاؤ میں کمی کا اعتراف کیا ہے۔ تاہم ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ اب بھی 30 سے زیادہ ممالک میں اس بیماری کے مریض سامنے آ رہے ہیں۔

انہوں ںے مزید کہا کہ ''یہ بیماری عالمی سطح پر صحت عامہ کے لیے ہنگامی نوعیت کا خطرہ ہے۔''

علاوہ ازیں، ان کا کہنا تھا کہ اس بیماری کی سنگینی کے بارے میں درست اطلاعات سامنے نہ آنے کے خدشات بھی موجود ہیں۔ خاص طور پر ایسے ممالک کے حوالے سے یہ خدشات زیادہ نمایاں ہیں جہاں اس بیماری کے مریض سامنے آ چکے ہیں۔ انہوں ںے تمام ممالک سے کہا کہ وہ ای پاکس کی نگرانی کی کوششیں جاری رکھیں۔

ایم پاکس وائرس سے پھیلنے والی ایک نایاب بیماری ہے جو بنیادی طور پر وسطی اور مغربی افریقہ کے استوائی بارانی جنگلات والے علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ حالیہ عرصہ میں یہ بیماری دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی سامنے آئی ہے جس سے 110 ممالک متاثر ہوئے ہیں جہاں اس کے 80,000 سے زیادہ مریض سامنے آ چکے ہیں جن میں 55 کی موت ہو چکی ہے۔

10,000 اموات 'بہت زیادہ' ہیں

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ کووڈ۔19 بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں اور ان میں اموات کی شرح کم ہو گئی ہے لیکن اب بھی یہ بیماری دنیا بھر میں ہر ہفتے 10 ہزار جانیں لے رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کی ایک ایسی بیماری سے ہفتہ وار 10 ہزار اموات بہت زیادہ ہیں جس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ایک سے دوسرے فرد کو زیادہ آسانی سے لاحق ہونے اور ہلاکت خیزی کی صلاحیت کے سبب کورونا وائرس کی اومیکرون لڑی کی ذیلی اقسام بھی تشویش کا باعث ہیں ۔

بیماری کے ماخذ کی تلاش

لاکھوں افراد کے کووڈ۔19 سے ہلاک اور متاثر ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سائنسی اور اخلاقی وجوہات کی بنا پر اس وبا کے ماخذ کا کھوج لگانا بہت اہم ہے تاکہ آئندہ بیماری کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اخلاقی اعتبار سے یہ جاننا اہم ہے کہ ہم نے اپنے عزیزوں کو کیسے کھویا۔ ہمیں یہ جاننے کے لیے اس وقت تک کوشش کرتے رہنا ہے جب تک کہ ہمیں یہ جواب نہ مل جائے کہ اس بیماری کا ماخذ کہاں ہے اور اس کا آغاز کہاں سے ہوا۔''

کووڈ۔19، ایبولا، ماربرگ اور متعدد دیگر بیماریوں کے ماخذ تاحال نامعلوم ہیں لیکن ان کی تلاش کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے پاس اس حوالے سے جائزہ لینے کے لیے کسی ملک میں داخلے کا اختیار نہیں ہے تاہم نئے جرثوموں کے ماخذ سے متعلق اس کا سائنسی مشاورتی گروپ (ایس اے جی او) واضح سوچ رکھتا ہے کہ اس معاملے میں آئندہ اقدامات کیا ہونے چاہئیں۔