انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افریقہ میں خوراک کے بڑے بحران کے دوران پوپ فرانسس کا دورہ کانگو

کانگو میں خوراک پیدا کرنے کی وسیع گنجائش موجود ہے۔
© OCHA/Alioune NDIAYE
کانگو میں خوراک پیدا کرنے کی وسیع گنجائش موجود ہے۔

افریقہ میں خوراک کے بڑے بحران کے دوران پوپ فرانسس کا دورہ کانگو

انسانی امداد

اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ جمہوریہ کانگو کو افریقہ کے سب سے بڑے غذائی بحران کا سامنا ہے جہاں خوراک کی طلب بڑھتی جا رہی ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے دستیاب مالی وسائل سکڑ رہے ہیں۔

جمہوریہ کانگو میں لاکھوں لوگوں، خصوصاً ملک کے شمال مشرقی علاقے کی آبادی کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے جہاں جاری لڑائی نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا ہے۔

Tweet URL

ان حالات میں پوپ فرانسس نے وسطی افریقہ کے اس ملک کا دورہ کیا ہے جس کے تیسرے روز لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے ان کا امید اور یکجہتی کا پیغام سنا۔ پوپ جمہوریہ کانگو کے اپنے سہ روزہ دورے میں متوقع طور پر ملک کے مشرقی علاقے میں جنگ کے باعث بے گھر ہونے والے خاندانوں سے ملاقات کریں گے۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کیا ہے کہ لوگوں کی اس بہت بڑی تعداد میں نصف ملین سے زیادہ حالیہ مہینوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

ان لوگوں کی مدد کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے نے عالمی برادری سے 627 ملین ڈالر سے زیادہ مالی وسائل فراہم کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ اس سال اہم امدادی ضروریات پوری کی جا سکیں۔

بدعنوانی سے اجتناب کریں: پوپ کی اپیل

پوپ فرانسس نے اپنی ذاتی اپیل میں کانگو کے نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ وہ بہتر مستقبل کے لیے کام کریں اور بدعنوانی اجتناب برتیں۔ کنشاسا میں 80,000 افراد کی گنجائش والے شہدا سٹیڈیم میں جمع ہونے والے لوگوں کے لیے اطالوی زبان میں ان کی باتیں فرانسیسی زبان میں ترجمہ کی گئیں۔

پوپ نے کہا کہ ''آپ عظیم تاریخ کا حصہ ہیں جو آپ کو شراکت کے معمار، اخوت کے حامی اور مزید متحدہ دنیا کا خواب دیکھنے والے ناقابل تسخیر افراد کے طور پر متحرک کردار ادا کرنے کو کہتی ہے۔ انہوں نے سامعین سے کہا کہ وہ ''بدعنوانی کی دلنشیں مگر زہریلی ترغیبات'' سے مغلوب نہ ہوں۔

ایک چوتھائی آبادی شدید بھوک کا شکار

2022 میں ڈبلیو ایف پی نے جمہوری کانگو میں غذائی بحران کے مقابل انتہائی غیرمحفوظ لوگوں میں سے 5.4 ملین کو خوراک اور غذائیت سے متعلق امداد پہنچائی جس میں جنگ سے متاثرہ خواتین اور بچوں کو خاص طور پر مدنظر رکھا گیا۔

تاہم وسطی افریقہ کے اس ملک میں ضروریات بہت زیادہ ہیں جہاں 26 ملین سے زیادہ لوگوں کو شدید بھوک کا سامنا ہے جو کہ ملک کی مجموعی آبادی کے ایک چوتھائی سے بڑی تعداد ہے۔

جمہوریہ کانگو کے لیے ڈبلیو ایف پی کے ڈائریکٹر اور نمائندے پیٹر موسوکو کا کہنا ہے کہ ''میں نے براہ راست مشاہدہ کیا ہے کہ اس ملک میں اپنے لوگوں کے لیے خوراک پیدا کرنے اور نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے۔''

انہوں ںے امید ظاہر کی کہ پوپ کا دورہ وسطی افریقہ کے اس ملک میں بھوک کا شکار لاکھوں لوگوں کی حالت زار کو سامنے لانے میں مدد دے گا جن کے لیے ڈبلیو ایف پی بعض اوقات ''تباہ کن غذائی عدم تحفظ کے خلاف واحد سہارا ہوتا ہے۔''

موسوکو نے کہا کہ ''اس وقت جاری ہنگامی حالات اور محدود وسائل کے ہوتے ہوئے ہم عالمی برادری سے 2023 میں 627.3 ملین ڈالر مہیا کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔''

کانگو کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج چودہ سالہ لڑکا جو مسلح جتھوں کی لڑائی میں زخمی ہو گیا تھا۔
© UNHCR/Hélène Caux
کانگو کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج چودہ سالہ لڑکا جو مسلح جتھوں کی لڑائی میں زخمی ہو گیا تھا۔

گوما کی پناہ گاہ

جمہوریہ کانگو کے شمال مشرقی علاقے میں تشدد سے بے گھر ہونے والے بعض لوگوں نے ڈبلیو ایف پی اور اس کے شراکت داروں سے مدد وصول کی ہے اور صوبائی دارالحکومت گوما کے نواح میں عارضی طور پر بنائے گئے کینیا روچینیا کیمپ میں پناہ گزین ہیں۔

یہاں ڈوراٹی ڈاگیسا نامی کسان بھی اپنے پانچ بچوں کے ساتھ مفلسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کا گھر مشرقی صوبے نورڈ کیوو میں تھا جہاں سے وہ مسلح گروہوں سے جان بچا کر آئی ہیں۔

بہت سے دیگر لوگوں کی حالت بھی انہی جیسی ہے جو 1998 سے 2003 تک جاری رہنے والے مسلح تنازعے سے جنم لینے والی شدید بدامنی کے متاثرین ہیں۔ یہ تنازع قیمتی معدنیات کی ملکیت پر شروع ہوا جس میں آٹھ علاقائی ہمسایے بھی شریک ہیں جو 100 سے زیادہ مسلح گروہوں کے ذریعے وسائل پر قبضے کی جنگ لڑ رہے ہیں اور یہ گروہ جمہوریہ کانگو کے مشرقی علاقے میں اب مقامی لوگوں کو دہشت زدہ کر رہے ہیں۔

ڈاگیسا کبھی اس جگہ سے 35 کلومیٹر (21.7 میل) کے فاصلے پر واقع گاؤں روگاری میں پھلیاں اور آلو اگاتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ''اس سے پہلے میں کسان کی حیثیت سے مستحکم زندگی گزار رہی تھی جنگ شروع ہونے کے بعد میرے پاس کچھ نہیں رہا اور مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اپنے بچوں کو کہاں سے کھلاؤں۔''