انسانی کہانیاں عالمی تناظر

تپ دق ویکسین کی تیاری کے لیے عالمی ادارہ صحت نے بنائی کونسل

انڈیا میں ایک ڈاکٹر تپ دق کے ممکنہ مریض کے ایکسرے کا جائزہ لے رہے ہیں۔
© ILO/Vijay Kuty
انڈیا میں ایک ڈاکٹر تپ دق کے ممکنہ مریض کے ایکسرے کا جائزہ لے رہے ہیں۔

تپ دق ویکسین کی تیاری کے لیے عالمی ادارہ صحت نے بنائی کونسل

صحت

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس تپ دق (ٹی بی) کے خلاف نئی اور مؤثر ویکسین تیار کرنے کی اجازت دینے کے عمل اور اس ویکسین کے استعمال کی رفتار تیز کرنے کے منصوبوں کی تفصیلات سامنے لائے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں بات کرتے ہوئے ٹی بی ویکسین کی تیاری کی رفتار بڑھانے کے لیے کونسل تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کووڈ۔19 کے بعد سب سے زیادہ ہلاکت خیز اور دنیا بھر میں اموات کا باعث بننے والی 13ویں بڑی بیماری ہے۔

Tweet URL

اپنے افتتاحی کلمات میں انہوں ںے کہا کہ کووڈ۔19 کے خلاف اقدامات سے حاصل ہونے والا ایک اہم ترین سبق یہ ہے کہ اگر اختراعی علاج کو سیاسی ترجیح اور خاطرخواہ مالی وسائل میسر ہوں تو اسے لوگوں تک پہنچانے کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ انسانی صحت پر اس بیماری کے اثرات کے باوجود ایک صدی کے عرصہ میں ٹی بی کی کسی نئی ویکسین کو لائسنس نہیں ملا۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ ''ٹی بی اور کووڈ۔19 سے لاحق مسائل کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے تاہم سائنس، تحقیق اور اختراع کی رفتار تیز کرنے والے عوامل ایک جیسے ہیں جن میں حکومت کی جانب سے فوری اور پیشگی سرمایہ کاری، فلاحی اداروں کا تعاون اور اس میں نجی شعبے اور مقامی لوگوں کی شمولیت خاص طور پر اہم ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے اعلیٰ سطحی تعاون سے ٹی بی کے شعبے میں بھی فائدہ ہو گا۔''

'ٹی بی کا پھیلاؤ جاری ہے'

نئی کونسل کا مقصد مالی وسائل مہیا کرنے والوں، عالمی اداروں، حکومتوں اور ٹی بی کے متاثرین کو ویکسین کی تیاری میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی اور ان پر قابو پانے کے طریقے وضع کرنے کے لیے اکٹھا کرنا ہے۔

ٹی بی یا تپ دق جراثیم سے پھیلتی ہے جو زیادہ تر پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ جب ٹی بی میں مبتلا فرد کھانستا، چھینکتا یا تھوکتا ہے تو اس بیماری کے جراثیم ہوا میں پھیل جاتے ہیں جن سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ یہ بیماری قابل علاج ہے اور اس کی روک تھام بھی ممکن ہے تاہم 2030 تک ٹی بی کے مکمل خاتمے کے عالمگیر وعدوں کے باوجود اس وبا کی رفتار سست ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔

2021 میں اندازاً 10.6 ملین افراد اس بیماری کا نشانہ بنے جن میں 1.6 ملین کی موت واقع ہو گئی۔ ٹی بی کے جراثیموں کی ادویات کے خلاف مزاحمت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور دنیا بھر میں تقریباً پانچ لاکھ افراد ہر سال اس بیماری کی ایسی اقسام میں مبتلا ہو رہے ہیں جن کا روایتی دواؤں سے علاج ممکن نہیں رہا۔

واحد ویکسین

فی الوقت 1921 میں تیار کردہ 'بیسیلس کلمٹ گیہان' (بی سی جی) ویکسین ٹی بی کی واحد لائسنس یافتہ ویکسین ہے۔ بی سی جی نومولود اور چھوٹے بچوں کو ٹی بی کی شدید اقسام کے خلاف درمیانے درجے کا تحفظ فراہم کرتی ہے جبکہ یہ نوعمروں اور بالغوں کو اس بیماری کے خلاف خاطرخواہ تحفظ نہیں دیتی جو دنیا بھر میں ٹی بی سے متاثرہ افراد کا قریباً 90 فیصد ہیں۔

ڈبلیو ایچ او نے حال ہی میں ٹی بی کی نئی ویکسین پر سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک جائزہ شروع کیا جس میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ نوعمروں اور بالغ افراد میں اس بیماری کے خلاف 50 فیصد تحفظ فراہم کرنے والی ویکسین آئندہ 25 برس میں 76 ملین افراد کو ٹی بی سے بچا سکتی ہے۔  

مزید برآں، 50 فیصد تک موثر ویکسین کی تیاری پر خرچ کیے جانے والے ہر ڈالر کے بدلے میں صحت پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی اور انسانی پیداواری صلاحیت میں اضافے کی صورت میں 7 ڈالر کا فائدہ ہو گا۔ علاوہ ازیں اس سے 8.5 ملین زندگیوں کو تحفظ ملے گا اور ٹی بی سے متاثرہ خصوصاً غریب ترین اور انتہائی غیرمحفوظ گھرانوں کے 6.5 بلین ڈالر کے اخراجات کی بچت ہو گی۔

ٹی بی کے خلاف 75 فیصد تک تحفظ دینے والی ویکسین 110 ملین لوگوں کو اس بیماری سے محفوظ رکھ سکتی ہے اور اس کی بدولت 12.3 ملین اموات کو روکا جا سکے گا۔

ٹی بی پر قابو پانے کے لیے 2018 کے سیاسی اعلامیے کے تحت کیے گئے وعدوں پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے دنیا بھر کے ممالک اس سال کے آخر میں اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اکٹھے ہوں گے۔ ڈبلیو ایچ او نے اس اجلاس کو وائرس کے خلاف اقدامات میں ناکامیوں پر قابو پانے ایک اہم موقع قرار دیا ہے جس میں فوری پیش رفت اور ٹی بی کی نئی ویکسین کی فراہمی پر بھی بات چیت ہو گی۔