انسانی کہانیاں عالمی تناظر

حراروں کے روزانہ استعمال میں یورپ اور امریکہ ایک بار پھر آگے

یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک میں گزشتہ برس سب سے زیادہ حرارے استعمال کیے گئے جن کی مقدار 3,540 روزانہ تھی
Unsplash/Christopher William
یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک میں گزشتہ برس سب سے زیادہ حرارے استعمال کیے گئے جن کی مقدار 3,540 روزانہ تھی

حراروں کے روزانہ استعمال میں یورپ اور امریکہ ایک بار پھر آگے

صحت

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) نے اعدادوشمار پر مبنی اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں لیے جانے والے حراروں (کیلریز) کی فی کس شرح پورے نو فیصد اضافے کے بعد گزشتہ برس اوسطاً 2,960 روزانہ رہی۔

یہ نتائج اس رحجان سے مطابقت رکھتے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2000 کے بعد دنیا کے ہر خطے میں لوگ پہلے سے زیادہ حرارے استعمال کرتے رہے ہیں۔ 2021 میں ایشیائی ممالک میں یہ مقدار اب تک سب سے زیادہ رہی۔

Tweet URL

یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک میں گزشتہ برس سب سے زیادہ حرارے استعمال کیے گئے جن کی مقدار 3,540 روزانہ تھی جبکہ افریقہ کے ممالک میں لوگوں ںے سب سے کم حرارے لیے جن کی مقدار 2,600 روزانہ رہی۔ اوشیانا خطے میں حراروں کا روزانہ استعمال امریکہ اور یورپ کے قریب ترین تقریباً 3,150 رہا۔

درجہ حرارت میں اضافہ

اقوام متحدہ کے ادارے کی جاری کردہ معلومات سے یہ اشارہ بھی ملتا ہےکہ 2021 میں اوسط درجہ حرارت 1951 اور 1980 کے درمیانی عرصہ کے مقابلے میں 1.4 ڈگری سیلسیئس زیادہ رہا۔

یورپ کے درجہ حرارت میں سب سے زیادہ تبدیلی دیکھی گئی جس کے بعد ایشیا کا نمبر آتا ہے جبکہ اوشیانا میں درجہ حرارت میں تبدیلی سب سے کم رہی۔

ایف او اے کے مطابق 2000 اور 2020 کے درمیان زرعی اراضی پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بھی چار فیصد کمی دیکھی گئی جس کا 70 فیصد کھیتوں میں پیدا ہوا۔

چاول: گرین ہاؤس گیسوں کا بڑا منبع

اقوام متحدہ کے ادارے کی شماریاتی ایئر بُک 2022 میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مویشیوں نے مرغیوں کی نسبت 50 فیصد زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کی اور گندم اور موٹے اناج کے مقابلے میں چاول کی فصل اگانے سے فضاء میں پانچ فیصد زیادہ کاربن خارج ہوئی۔

245 سے زیادہ ممالک اور علاقوں میں 20 ہزار سے زیادہ اشاریوں سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر ایف اے او کے اعدادوشمار کا تجزیہ کرنے والوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس وقت 86 کروڑ 60 لاکھ لوگ زرعی شعبے میں کام کرتے ہیں۔

اچھی فصل

اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ یہ اعدادوشمار محنت کی عالمی منڈی کے ایک چوتھائی سے زیادہ حصے کا احاطہ کرتے ہیں جس کی مالی پیداواری قدر 3.6 ٹریلین ڈالر ہے۔ سال 2000 کے مقابلے میں اس محنت کی مالی قدر 78 فیصد زیادہ ہے اور اس پیداوار کے حصول میں 16 فیصد کم لوگوں کی محنت صرف ہوئی جبکہ اس عرصہ میں افریقہ میں ترقی کی رفتار میں دو گنا اضافہ ہوا۔

2000 سے 2020 تک بنیادی فصلوں جیسا کہ گنے، مکئی، گندم اور چاول کی پیداوار 52 فیصد اضافے کے ساتھ 9.3 ارب ٹن تک پہنچ گئی۔

اس عرصہ میں سبزیوں اور تیل کی پیداوار میں 125 فیصد تک اضافہ ہوا جبکہ پام آئل کی پیداوار میں 236 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ گوشت کی پیداوار میں 45 فیصد تک اضافہ ہوا جس میں مرغی کے گوشت کی مقدار سب سے زیادہ ہے جبکہ سبزیوں اور پھلوں کی پیدوار میں 20 فیصد یا اس سے کم اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ایف اے او کی جانب سے پیش کردہ چکرا دینے والے اعدودشمار پر مبنی حقائق معمہ دکھائی دیتے ہیں جن کی رو سے گنا اپنی مقدار کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی فصل رہی جس کی سالانہ پیداوار 19 لاکھ ٹن ریکارڈ کی گئی۔ اس کے بعد مکئی کا نمبر آتا ہے جس کی پیداوار 12 لاکھ ٹن رہی۔

گندم اور موٹے اناج کے مقابلے میں چاول کی فصل اگانے سے فضاء میں پانچ فیصد زیادہ کاربن خارج ہوئی۔
FAO/Ryanwil Baldovino
گندم اور موٹے اناج کے مقابلے میں چاول کی فصل اگانے سے فضاء میں پانچ فیصد زیادہ کاربن خارج ہوئی۔

برآمدات کی صورتحال

علاوہ ازیں خوراک کی عالمگیر برآمدات 1.42 ٹریلین ٹن رہیں جو کہ اس صدی کے آغاز کے عرصہ میں ایسی برآمدات کے مقابلے  میں 3.7 گنا زیادہ ہیں۔

دنیا بھر میں ہر طرح کی خوراک برآمد کرنے والے ممالک میں امریکہ، نیدرلینڈز اور چین سب سے نمایاں رہے۔ اپنی درآمدات سے زیادہ چیزیں بیرون ملک بھیجنے والے خالص برآمد کنندگان میں اب تک برازیل اور اس کے بعد ارجنٹائن اور سپین سب سے آگے ہیں۔ خالص درآمدات کے اعتبار سے چین، جاپان اور برطانیہ سب سے بڑے ممالک ہیں۔

کرہ ارض کا زرعی رقبہ 4.74 ارب ہیکٹر ہے جس میں گھاس کے میدان، چراگاہیں اور فصلیں شامل ہیں۔

اس کے باوجود 2000 سے اب تک کھیتی باڑی کے لیے استعمال ہونے والے مجموعی رقبے میں تین فیصد تک کمی آئی اور اس صدی کے آغاز سے اب تک کے مقابلے مین یہ فی کس چھ فیصد کم ہے اور اس معاملے میں بھی افریقہ سرفہرست رہا۔ 

پرانا فارمولا

ایف اے او میں اعدادوشمار سے متعلق ماہرین نے یہ بھی دیکھا ہے کہ دنیا بھر میں کیڑے مار زرعی ادویات کا استعمال 2012 میں عروج پر رہا جس میں 2017 میں کمی آنا شروع ہوئی۔ فی ہیکٹر سب سے بڑی مقدار میں کیڑے مار ادویات استعمال کرنے والے ممالک سینٹ لوسیا، مالدیپ اور اومان نمایاں ہیں۔