انسانی کہانیاں عالمی تناظر

امن دستے کارآمد یا ناکارہ؟ جانیے اعداد و شمار کی روشنی میں

امن سپاہی کانگو میں خدمات سرانجام دینے کے دوران حملوں میں ہلاک ہونے والے اپنے ساتھیوں کی آخری رسومات ادا کر رہے ہیں۔
MONUSCO
امن سپاہی کانگو میں خدمات سرانجام دینے کے دوران حملوں میں ہلاک ہونے والے اپنے ساتھیوں کی آخری رسومات ادا کر رہے ہیں۔

امن دستے کارآمد یا ناکارہ؟ جانیے اعداد و شمار کی روشنی میں

امن اور سلامتی

دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے امن مشن کی ناکامیوں کی بھرپور تشہیر ہوتی رہی ہے اور یہ ایک جانی مانی حقیقت بھی ہے۔ تاہم مجموعی صورتحال پر نظر ڈالی جائے اور اس حوالے سے معلومات کا تجزیہ کیا جائے تو ایک مختلف اور بالاآخر مثبت تصویر ابھرتی ہے۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی پروفیسر لیز ہاورڈ۔
UN Video/ Francis Mead

ہم عصر تحقیقی اداروں کے جانچے گئے 16 جائزوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قیام امن کے لیے کام کرنے والے مشن یا 'بلیو ہیلمٹ' کے نام سے معروف اقوام متحدہ کے امن دستوں نے شہریوں کے جانی و جسمانی نقصان میں کمی لانے، جنگوں کا دورانیہ محدود کرنے اور امن معاہدوں کو برقرار رکھنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔

درحقیقت ایسے بیشتر امن مشن معاشروں کو مستحکم کرنے اور جنگوں کو ختم کرنے کے اپنے بنیادی مقصد میں بالاآخر کامیاب رہے ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی پروفیسر لیز ہاورڈ کا کہنا ہے کہ ''اگر ہم اس حوالے سے ریکارڈ کا باقاعدہ جائزہ لیں تو اکثر اوقات قیام امن کے مشن کامیاب رہے ہیں۔'' انہوں ںے یہ بات کئی ممالک میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کے مشن کے حوالے سے جامع عملی تحقیق کی بنیاد پر تحریر کردہ اپنی حالیہ کتاب 'پاور اِن پیس کیپنگ' میں کہی ہے۔

ٹھوس کامیابی

پروفیسر ہاورڈ نے یو این ویڈیو کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ''اگر ہم سرد جنگ کے بعد سے اب تک پایہ تکمیل کو پہنچنے والے ہر مشن کا جائزہ لیں تو ان کی دو تہائی تعداد اپنی ذمہ داریوں پر کامیابی سے عملدرآمد کر کے واپس آنے میں کامیاب رہی ہے۔''

ان کا کہنا ہے کہ ''اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان تمام واقعات میں متعلقہ ممالک کی صورتحال ہر لحاظ سے بہتر ہو گئی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ حالت جنگ میں نہیں ہیں۔''

وہ کہتی ہیں کہ ''قیام امن کے لیے کام کرنے والے مشن خانہ جنگی دوبارہ شروع ہونے کے امکان کو محدود کر دیتے ہیں۔ وہ امن معاہدوں کے حصول میں بھی مدد دیتے ہیں۔ جہاں قیام امن کے لیے کام کرنے والے مشن کا کردار ہو وہاں امن معاہدہ طے پانے اور ایسے معاہدوں کے برقرار رہنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔''

1993 میں تھائی لینڈ سے واپس آنے والے کمبوڈیا کے پناہ گزینوں سے لدی ٹرین کو ہالینڈ تعلق رکھنے والے امن فوجی تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔
UN Photo/Pernaca Sudhakaran
1993 میں تھائی لینڈ سے واپس آنے والے کمبوڈیا کے پناہ گزینوں سے لدی ٹرین کو ہالینڈ تعلق رکھنے والے امن فوجی تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

لاکھوں زندگیوں کا تحفظ

سب سے بڑھ کر، قیام امن کے لیے کام کرنے والے مشن زندگیوں کو تحفط دیتے ہیں۔ پروفیسر ہاورڈ کہتی ہیں کہ 1948 میں ایسے مشن شروع ہونے کے بعد لاکھوں زندگیاں بچائی گئی ہیں۔

جنگ کے بجائے امن کے لیے فوجیوں کا استعمال 1948 میں مشرق وسطیٰ میں امن مذاکرات کے دوران شروع ہوا تھا جب نئی قائم ہونے والی اسرائیل کی ریاست کی اپنے ہمسایوں سے جنگ ہو رہی تھی۔

امن مشن کے بانیوں میں ڈاکٹر رالف بنچ بھی شامل ہیں جو اقوام متحدہ میں اعلیٰ عہدے پر خدمات انجام دینے والے امریکی سفارت کار تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ''یہ انسانی تاریخ کا ایک انوکھا تصور تھا کہ فوجیوں کو غیرجانبدارانہ حیثیت میں تعینات کیا جائے تاکہ وہ کسی فریق کی طرف داری نہ کریں۔ ان کی تعیناتی متحارب فریقین کی رضامندی سے عمل میں آئے گی تاکہ وہ انہیں امن معاہدوں پر عملدرآمد میں اپنی مدد کے لیے کہہ سکیں۔''

ڈاکٹر بنچ کو 1948 میں مصر اور اسرائیل کے مابین مذاکرات کے ذریعے جنگ بند کرانے پر 1950 میں امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔

کیس سٹڈی: نمیبیا

پروفیسر ہاورڈ نے جن ممالک میں قیام امن کے لیے کام کرنے والے مشن کی کارکردگی کا جائزہ لیا ہے ان میں نمیبیا بھی شامل ہے۔ 1989 میں اقوام متحدہ کے ایسے ہی ایک مشن نے وہاں خانہ جنگی ختم کرانے اور ملکی تاریخ میں پہلے آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے انعقاد میں مدد دی۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔

پروفیسر ہاروڈ کہتی ہیں کہ ''نمیبیا نے بہت بڑی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ وہاں بہت سی نوآبادیاتی طاقتوں کی حکمرانی رہی ہے۔ وہاں قتل عام ہوتا رہا ہے۔ یہ ملک علاقائی جنگ اور خانہ جنگی سے متاثر رہا ہے۔ تاہم حیران کن طور پر نمیبیا نے اپنی تاریخ کے ان انتہائی مشکل ادوار میں بھی خود کو قائم رکھا۔''

آج نمیبیا ایک مستحکم اور بالائی متوسط درجے کی آمدنی والا ملک ہے جہاں جمہوریت فعال ہے اور اس ملک کے تاریخی پس منظر کو دیکھا جائے تو یہ ایک غیرمعمولی کامیابی ہے۔

نمیبیا میں اقوام متحدہ کا مشن اپنے دور کے اعتبار سے بہت خاص تھا۔ اس میں شامل 40 فیصد اہلکار خوتین تھیں۔ پروفیسر ہاورڈ کا کہنا ہے کہ قیام امن کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے مشن اس وقت زیادہ موثر رہتے ہیں جب ان کا انحصار محض اسلحے پر نہ ہو۔

سوئیڈن سے تعلق رکھنے والے امن فوجی 1956 میں مصر کے صحراؤں میں۔
UN Photo/GJ
سوئیڈن سے تعلق رکھنے والے امن فوجی 1956 میں مصر کے صحراؤں میں۔

قائل کرنے کی طاقت

لیز ہاورڈ کے مطابق ''دوسروں کو قائل کرنے کی صلاحیت ایسے مشن کی بنیادی طاقت ہوتی ہے۔ امن مشن کے اہلکاروں نے نمیبیا میں سیاسی نظام میں اصلاحات لانے میں مدد دی۔ اس سے پہلے کسی نے انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالا تھا۔ امن مشن کے لوگ شہریوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے اور یہ بتانے میں مدد دے رہے تھے کہ اپنے رہنما خود منتخب کرنے کا کیا مطلب ہے۔''

خانہ جنگی سے متعلق پیچیدہ مشن میں یہ لوگ ناصرف جنگ بندی کی نگرانی کرتے ہیں بلکہ یہ ملک کے بنیادی اداروں کی تعمیر نو میں بھی مدد دے رہے ہیں۔

یہ مشن فوجی نقل و حرکت کو روکنے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ عدالتی اور معاشی نظام میں اصلاحات لانے میں مدد فراہم کرتے ہیں تاکہ جب تنازعات سر اٹھائیں تو لوگ انہیں حل کرنے کے لیے دوبارہ تشدد کا رخ نہ کریں۔

شہریوں کی زندگی کو تحفظ دینا ایسے مشن کا ایک اور اہم ہدف ہوتا ہے۔ جنوبی سوڈان میں خانہ جنگی کے دوران اقوام متحدہ کے مشن نے ہزاروں لوگوں کے لیے اپنی عمارتوں کے دروازے کھول دیے اور شدید تشدد کے دوران لوگوں کو پناہ مہیا کی۔

جنسی بدسلوکی

ایسے واقعات بھی ہوئے جب قیام امن کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے اہلکاروں نے شہریوں کو تحفظ دینے کے بجائے انہیں بہت نقصان پہنچایا۔ ایسے اہلکاروں کی چھوٹی سی اقلیت نے کمزور لوگوں کا استحصال کیا اور انہیں بدسلوکی کا نشانہ بنایا۔

اقوام متحدہ نے قیام امن کے لیے کام کرنے والے اپنے اہلکاروں کو جنسی تشدد کے ارتکاب سے روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔ جہاں ایسے واقعات پیش آئے وہاں تعینات پوری بٹالین کو ذمہ داریوں سے سبکدوش کر کے واپس بھیج دیا گیا۔ اقوام متحدہ نے یہ یقینی بنانے کے طریقہ ہائے کار بھی وضع کیے ہیں کہ متاثرین قیام امن کے لیے کام کرنے والوں کے ہاتھوں جنسی بدسلوکی اور استحصال کی بلا خوف و خطر اطلاع دے سکیں۔ 

اقوام متحدہ نے وسطی جمہوریہ افریقہ (سی اے آر)، جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی)، ہیٹی اور لائبیریا میں جنسی بدسلوکی اور استحصال کا نشانہ بننے والوں کی مدد کے لیے چار ملین ڈالر سے زیادہ مالی وسائل بھی جمع کیے ہیں۔ اس حوالے سے ٹرسٹ فنڈ متاثرین اور جنسی استحصال اور بدسلوکی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کی مدد کے لیے رکن ممالک کی معاونت کرتا ہے۔

کیس سٹڈی: لبنان

لبنان میں اقوام متحدہ کا مشن فوجی طاقت کے علاوہ دیگر ذرائع سے قیام امن میں کامیابی حاصل کرنے کی ایک اور مثال ہے۔ 'یو این آئی ایف آئی ایل' نامی یہ مشن اسرائیل اور لبنان کی سرحد پر ایسے علاقے میں تعینات ہے جہاں شدید تناؤ پایا جاتا ہے۔ یہاں سرحد کی ایک جانب اسرائیل کی ڈیفنس فورسز تعیانت ہیں اور دوسری جانب حزب اللہ اور دیگر مسلح کردار موجود ہیں۔

'یو این آئی ایف آئی ایل' کا ایک بنیادی مقصد اسرائیلی ڈیفنس فورسز اور لبنانی فوج کے مابین تناؤ کا خاتمہ کرنا اور امن برقرار رکھنا ہے۔ تاہم، پروفیسر ہاورڈ کہتی ہیں کہ آج کل قیام امن کے مشن جو بنیادی طاقت استعمال کرتے ہیں وہ 'تشدد سے گریز کی ترغیب' ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ''اقوام متحدہ کا مشن امن قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ کسی کو ان سے خوف ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے امن مشن کی جانب سے لوگوں کو امن کی ترغیب دینے کے کتنے فوائد ہیں۔''

پروفیسر ہاورڈ نے لبنان میں اپنی تحقیق کے دوران امن مشن کے کام کا براہ راست مشاہدہ کیا۔

پیدل گشت

''جنوبی لبنان میں ہم اقوام متحدہ کے امن دستوں کو اکثر پیدل گشت کرتا دیکھتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے درمیان سے گزرتے ہیں۔ وہ بازاروں میں جاتے ہیں، لوگوں سے بات کرتے ہیں، امام سے بات کرتے ہیں اور مقامی رہنماؤں سے گفت و شنید کرتے ہیں۔ وہ طبی مرکز کے قیام میں مدد دینے یا دندان سازی کی خدمات مہیا کرنے جیسے کام کرتے ہیں۔ وہ جنوبی لبنان میں بہت سے لوگوں کو روزگار بھی فراہم کرتے ہیں۔

باالفاظ دیگر، اقوام متحدہ کے امن دستے بات چیت کرنے اور تناؤ میں کمی لانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں سے واقفیت حاصل کرتے ہیں اور انہیں خدمات بھی مہیا کرتے ہیں۔ اس سے امن اور استحکام کے فوائد کا اظہار ہوتا ہے۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والا امن دستہ کانگو میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے۔
MONUSCO/Kevin N. Jordan
پاکستان سے تعلق رکھنے والا امن دستہ کانگو میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے۔

جنگ سے امن کی جانب سفر

پروفیسر ہاورڈ کہتی ہیں کہ اقوام متحدہ کے امن مشن جب فوجی طاقت کے بجائے ترغیب وتحریک سے کام لیتے ہیں تو زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ تاہم اس کامیابی کے پیچھے جو بھی تصور ہو، جامع اور باقاعدہ جائزوں سےحاصل ہونے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر اوقات اقوام متحدہ کے امن مشن کامیاب رہتے ہیں۔

''اگر ہم تمام واقعات کو منظم طور سے دیکھیں تو امن دستے لوگوں کو روزمرہ زندگی میں مدد دے رہے ہیں اور انہیں جنگ اور پرتشدد تنازعے سے نکال کر ایسے حالات کی جانب لے جاتے ہیں جہاں زیادہ امن ہوتا ہے۔''

اقوام متحدہ کے اب تک کامیاب امن مشن:

  1. نمیبیا 1989-1990
  2. کمبوڈیا 1992-1993
  3. موزمبیق 1992-1994
  4. ایل سلواڈور 1991-1995
  5. گوئٹے مالا 1997-1997
  6. مشرقی سلاؤنیہ/کروشیا 1996-1998
  7. ٹیمور لیسٹے 1999-2002
  8. سیرالیون 1999-2005
  9. برونڈی 2004-2006
  10. ٹیمور لیسٹے 2006-2012
  11. آئیوری کوسٹ 2004-2017
  12. لائبیریا 2003-2018