انسانی کہانیاں عالمی تناظر

موسمیاتی تبدیلی ہیضے کی وباء میں تیزی کا ممکنہ سبب، عالمی ادارہِ صحت

پین امریکن ہیلتھ آرگنائزیشن کے تعاون سے ہیٹی کو ہیضے کی ویکسین کی گیارہ لاکھ ستر ہزار خوراکیں ملی ہیں۔
© WHO-PAHO
پین امریکن ہیلتھ آرگنائزیشن کے تعاون سے ہیٹی کو ہیضے کی ویکسین کی گیارہ لاکھ ستر ہزار خوراکیں ملی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی ہیضے کی وباء میں تیزی کا ممکنہ سبب، عالمی ادارہِ صحت

صحت

 ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اس سال دنیا بھر میں ہیضے کے مریضوں کی تعداد میں ''غیرمعمولی'' اضافے اور زیادہ مہلک وباؤں کا باعث بنی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار ڈاکٹر فلپ باربوزا نے زوم کے ذریعے جنیوا میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''دنیا میں ہر جگہ ہیضے سے خطرہ لاحق ہے۔''

دستیاب معلومات سے تقریباً 30 ممالک میں اس بیماری کی موجودگی کی نشاندہی ہوتی ہے جبکہ گزشتہ پانچ برس میں اوسطاً 20 سے کم ممالک میں اس بیماری کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

ہیضے اور اسہال کی وبائی بیماریوں سے متعلق ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر باربوزا کے مطابق ''یہ صورتحال انتہائی غیرمعمولی ہے کہ ہم ناصرف پہلے سے بڑی تعداد میں وباؤں کا مشاہدہ کر رہے ہیں بلکہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں یہ وبائیں کہیں بڑی اور زیادہ مہلک بھی ہیں۔

ہیضے کی وباؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد کئی سال تک اس بیماری کے متاثرین اور ان میں اموات کی تعداد میں متواتر کمی کے بعد سامنے آ رہی ہے۔

پاکستان میں جہاں گزشتہ برسوں میں ہیضے کے اکا دکا مریض ہی سامنے آتے تھے وہاں سیلاب کے بعد ان کی تعداد اب ہزاروں میں ہے۔
© UNFPA / Shehzad Noorani
پاکستان میں جہاں گزشتہ برسوں میں ہیضے کے اکا دکا مریض ہی سامنے آتے تھے وہاں سیلاب کے بعد ان کی تعداد اب ہزاروں میں ہے۔

پاکستان میں سیلاب کے بعد ہیضے کی وباء

ہیٹی، لبنان، ملاوی اور شام سمیت کئی دیگر ممالک بھی اس بیماری سے متاثر ہوئے ہیں جہاں اس کی بڑے پیمانے پر وبائیں پھوٹی ہیں۔

پاکستان میں، جہاں گزشتہ برسوں میں ہیضے کے اکا دکا مریض ہی سامنے آتے تھے، اس سال موسم گرما کے تباہ کن سیلاب کے بعد پانچ لاکھ افراد کے پانی سے پھیلنے والے اسہال میں مبتلا ہونے کی اطلاعات آئی ہیں۔ تاہم وہاں ہیضے کے ایسے مریضوں کی تعداد ''چند ہزار سے کم'' ہے جن میں لیبارٹری سے کرائے گئے ٹیسٹ کے بعد اس بیماری کی تصدیق ہوئی ہے۔

لا نینا کا تہرا خطرہ

ڈبلیو ایچ او کا یہ تخمینہ بھی اتنا ہی پریشان کن ہے کہ یہ صورتحال 2023 میں ''فوری طور پر تبدیل نہیں ہو گی''  کیونکہ ماہرین موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ موسمیاتی مظہر لا نینا ممکنہ طور پر مسلسل تیسرے سال بھی جاری رہ سکتا ہے۔

ڈاکٹر باربوزا کا کہنا ہے کہ ''طویل خشک سالی اور بارشیں اور طوفانوں میں اضافہ لانینا سے متعلق قدرتی آفات میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی لیے اس بات کا بہت زیادہ امکان موجود ہے کہ ہم آئندہ بھی ایسی ہی صورتحال کا مشاہدہ کریں گے جو ہم نے 2022 کے آغاز میں دیکھی تھی۔'' انہوں نے نشاندہی کی کہ افریقہ کے مشرقی اور جنوبی حصے، غرب الہند اور ایشیا اس سے بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔

لبان میں ہیضہ پھیلنے کے بعد ڈبلیو ایچ او کے دبئی مرکز سے ادویات اور طبی سامان کی پہلی کھیپ پہنچی ہے۔
WHO
لبان میں ہیضہ پھیلنے کے بعد ڈبلیو ایچ او کے دبئی مرکز سے ادویات اور طبی سامان کی پہلی کھیپ پہنچی ہے۔

ویکسین کی کمیابی

اگرچہ ہیضے کا پھیلاؤ روکا جا سکتا ہے تاہم دنیا بھر میں ویکسین کی قلت ہے اور اسے پیدا کرنے والے ملک جنوبی کوریا اور انڈیا پہلے ہی اپنی زیادہ سے زیادہ پیداواری صلاحیت سے کام لیتے ہوئے سالانہ 36 ملین خوراکیں تیار کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر باربوزا نے کہا ہے کہ اگرچہ جنوبی افریقہ میں بھی ویکسین کی تیاری پر کام جاری ہے لیکن وہاں بنائی جانے والی ویکسین کو لوگوں تک پہنچنے میں کئی سال لگیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ویکسین نہایت کمیاب ہے اور بین الاقوامی رابطہ گروپ (آئی سی جی) کو ہیضے سے متعلقو وباؤں سے نمٹنے کے لیے ویکسین لگانے کے حوالے سے اپنی عالمگیر حکمت عملی کے تحت ہر فرد کے لیے اس کی خوراکوں کی تعداد دو سے ایک کرنے کے بارے میں اکتوبر میں فیصلہ کرنا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار نے زور دے کر کہا کہ ویکسین کی قلت کے باوجود ایسی بیماریوں کے مقابلے میں ہیضے کا ''علاج آسان ہے'' جن کے مریضوں کو وینٹی لیٹر اور خصوصی نگہداشت کے یونٹوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہیضے کے مریضوں کو وریدی انجیکشن یا اینٹی بائیوٹک دوائیں دے کر بھی فوری صحت یاب کیا جا سکتا ہے۔

'غربت' کی بیماری

ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ہیضے کے 13 سے 40 لاکھ مریض سامنے آتے ہیں اور اس بیماری سے ہر سال 143,000 اموات ہوتی ہیں۔ یہ شدید اسہالی انفیکشن ہے جو وائبریو کولرا نامی جرثوموں سے آلودہ پانی پینے یا خوراک کھانے سے لاحق ہوتی ہے۔

ڈاکٹر باربوزا کا کہنا ہے کہ ''ہیضہ واضح طور پر غربت اور کمزوری کی بیماری ہے۔ کسی بھی ملک کی آبادی کا کمزور ترین حصہ اس بیماری کی زد میں ہوتا ہے اور اس کی سادہ سی وجہ ہوتی ہے کہ اسے صاف پانی اور نکاسی آب کی بنیادی سہولت تک رسائی نہیں ہوتی۔''