انسانی کہانیاں عالمی تناظر

امن سپاہیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام میں ’اہم پیش رفت‘

امن سپاہی مالی میں بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے اپنے دو ساتھیوں کی آخری رسومات ادا کر رہے ہیں۔
MINUSMA/Marco Dormino
امن سپاہی مالی میں بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے اپنے دو ساتھیوں کی آخری رسومات ادا کر رہے ہیں۔

امن سپاہیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام میں ’اہم پیش رفت‘

امن اور سلامتی

قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی کارروائیوں کے سربراہ جین پیئر لاکواء نے امن اہلکاروں 'بلیو ہیلمٹس' کے خلاف جرائم میں ملوث عناصر سے جواب طلبی کو امن مشن کے ارکان کی حفاظت اور سلامتی بہتر بنانے میں انتہائی اہم قرار دیا ہے۔

اس اقدام میں تعاون کے لیے نئے 'گروپ آف فرینڈز' کے آغاز کے موقع پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 1948 سے اب تک دنیا بھر میں امن مشن کے خلاف حملوں میں قیام امن کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے 1,056 اہلکاروں کی جان جا چکی ہے جبکہ 3,080 زخمی ہوئے ہیں۔

Tweet URL

اس دوران انہوں نے دنیا بھر میں امن مشن کی کارروائیوں میں فوجی دستے اور پولیس بھیجنے والے ممالک کو خراج تحسین پیش کیا جن کے اہلکار اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے خدمات انجام دیتے ہوئے ہلاک یا زخمی ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ''ان کی قربانیاں یاد رکھی جائیں گی۔''

تاہم ان اہلکاروں پر حملہ کرنے والے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی راہ میں حائل سنگین مشکلات کے باعث ایسے واقعات میں قانونی کارروائی کی شرح کم ہے جس کے نتیجے میں ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کھلی چھوٹ ملتی رہتی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

لاکواء کا کہنا تھا کہ 'گروپ آف فرینڈز' اس معاملے میں احتساب کو فروغ دینے اور امن مشن کے میزبان ممالک کے حکام کو اپنی صلاحیتیں بہتر بنانے اور انہیں تکنیکی معاونت فراہم کرنے میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے مکمل تعاون کی پیشکش کی جس میں پیش رفت کی نگرانی اور سیکرٹریٹ کے طور پر خدمات انجام دینا بھی شامل ہے۔

نمایاں پیش رفت

اگرچہ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے چند لوگوں کو ہی انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکا ہے تاہم 2019 کے بعد اس معاملے میں ''قابل ذکر پیش رفت'' ہوئی ہے۔

لاکواء نے کہا کہ وسطی جمہوریہ افریقہ (سی اے آر)، جمہوری کانگو (ڈی آر سی) اور مالی میں 2013 کے آغاز سے اب تک قیام امن کی کارروائیوں میں ان اہلکاروں کی ہلاکتیں دنیا بھر میں پیش آنے والے ایسے تمام واقعات کا 84 فیصد ہیں، اور وہاں ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے ملزموں کی نشاندہی اور گرفتاری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ان جرائم کی قومی سطح پر تحقیقات کے واقعات کی شرح بھی بڑھی ہے۔

انہوں ںے مزید کہا کہ ''سب سے اہم بات یہ ہے کہ سی اے آر، ڈی آر سی، لبنان اور مالی میں اقوام متحدہ کے امن اہلکاروں کو ہلاک کرنے پر ''66 افراد کو مجرم قرار دیا جا چکا ہے''۔

'ہلاکتیں ناقابل قبول ہیں'

مالی میں اقوام متحدہ کے امن مشن کا فرانسیسی زبان میں نام لیتے ہوئے ہوئے انہوں نے 10 اکتوبر کو چاڈ سے تعلق رکھنے والے 'مِنوسما' کے چار اہلکاروں کی 'ٹیسالِٹ' میں دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے اموات کا تذکرہ کیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ ''اس مسئلے کی اہمیت برقرار ہے''۔ 

26 جولائی سے اب تک ایسے واقعات میں انڈیا، مراکش اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے امن اہلکاروں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں جو ڈی آر سی (مونوسکو) میں اقوام متحدہ کے استحکامی مشن میں خدمات انجام دے رہے تھے جبکہ سی اے آر میں اقوام متحدہ کے کثیرالجہتی مربوط استحکامی مشن (مِنوسکا) کے لییے کام کرنے والے بنگلہ دیش کے تین بلیو ہیلمٹ ہلاک ہو چکے ہیں۔

امن کارروائیوں کے لیے اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ ''اس سال کے آغاز سے اب تک ایسے حالات میں 29 امن اہلکاروں کی ہلاکت کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔'' انہوں نے ان اہلکاروں کے ممالک کی حکومتوں اور ان کے اہلخانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کیا۔

جمعرات کو ہونے والے اجلاس سے سے چند ہی گھنٹے قبل جنوبی لبنان میں اقوام متحدہ کے مشن 'یونیفِل' میں خدمات انجام دینے والا ایک امن اہلکار حملے کی زد میں آنے کے بعد ہلاک ہو گیا۔

مجرموں کا محاسبہ

لاکواء نے اس بات پر زور دیا کہ ''جن ممالک میں قیام امن کے لیے کارروائیاں جاری ہوں ان کے لیے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے تحت ایسے جرائم میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔''

لاکواء نے امن اہلکاروں کے تحفظ کی بابت 2020 میں سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد (2518) کا حوالہ دیا جس میں ''قیام امن کی کارروائیوں کی میزبانی کرنے والے تمام رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسے واقعات کی فوری تفتیش کریں اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں پر حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف موثر قانونی کارروائی ممکن بنائیں۔''

مزید برآں، 2021 میں کونسل نے امن اہلکاروں کے خلاف کیے گئے جرائم پر احتساب کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے قرارداد 2589 کی منظوری دی تھی جس میں اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی پر دوبارہ توجہ دینے کے لیے کہا گیا ہے۔

اگرچہ امن اہلکاروں کے خلاف مجرمانہ کارروائیوں کے ذمہ دار عناصر کا احتساب کرنے کی بنیادی ذمہ داری امن مشن کے میزبان ممالک کی ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ خاص طور پر سی اے آر، ڈی آر سی اور مالی میں اقوام متحدہ بھی مجرموں کے احتساب کا کام جاری رکھے گا۔

26 جولائی سے اب تک ایسے واقعات میں انڈیا، مراکش اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے امن اہلکاروں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
UN/Byobe Malenga

میزبان ممالک سے تعاون

اگرچہ ایک ورکنگ گروپ 2019 سے ایسے جرائم کی تحقیقات اور ان پر قانونی کارروائی میں مدد دے رہا ہے لیکن بہت سے مسائل اب بھی باقی ہیں۔

اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ''ایسے جرائم عام طور پر اُن علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں ریاستی عملداری محدود ہو اور نفاذ قانون کا کام کرنے والے اہلکار موجود نہ ہوں۔ ان حالات میں واقعات کے گواہوں کی سلامتی ممکن بنانے اور شہادتیں جمع اور محفوظ کرنے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔''

علاوہ ازیں، امن اہلکاروں کی تبدیلی اور ان کی وطن واپسی بھی شہادتیں قلمبند کرنے میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ''بعض واقعات میں ایسے مجرمانہ افعال پر قانونی کارروائی کے لیے سیاسی ارادے کی غیرموجودگی مسائل کو مزید بڑھا دیتی ہے۔''

مستقبل کا لائحہ عمل

لاکواء نے بتایا کہ مجرمانہ کارروائیوں کے ذمہ دار عناصر کو ممالک کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کی بات دیگر معاہدوں کے علاوہ ''امن مشن کے لیے اہلکار بھیجنے والے ملک اور مشن کے میزبان ملک'' کے مابین معاہدوں میں بھی کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں بین الاقوامی تعاون کو برقرار رکھنا ''کامیابی کے حصول کے لیے ناگزیر اہمیت رکھتا ہے۔'' ان کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی دباؤ یا قومی منصوبوں اور ترجیحات کی بنیاد پر تکنیکی اور مادی مدد کی فراہمی کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔

انہوں ںے کہا کہ اگرچہ فیلڈ مشن تفویض کردہ ذمہ داریوں کے دائرے میں اہم مدد فراہم کرتے ہیں تاہم ایسے واقعات میں ملکی حکام کو تحقیقات اور قانونی کارروائی میں مدد فراہم کرنے کے لیے خصوصی تربیت یافتہ اہلکاروں کی تعیناتی بھی ''ضروری'' ہے۔

لاکواء نے اس معاملے میں وکالت کو ''اہم'' قرر دیتے ہوئے 'گروپ آف فرینڈز' کے باقاعدہ آغاز کا بھرپور خیرمقدم کیا۔