انسانی کہانیاں عالمی تناظر

تنازعات اور اُن کا حل کثیر فریقی سفارتکاری کی اہمیت بڑھاتے ہیں: گوتیرش

سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ سرد جنگ کے تاریک ترین دور میں بھی اجتماعی فیصلہ سازی اور سلامتی کونسل میں متواتر بات چیت نے اجتماعی سلامتی کا ایک فعال نظام برقرار رکھا۔
UN Photo/Loey Felipe
سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ سرد جنگ کے تاریک ترین دور میں بھی اجتماعی فیصلہ سازی اور سلامتی کونسل میں متواتر بات چیت نے اجتماعی سلامتی کا ایک فعال نظام برقرار رکھا۔

تنازعات اور اُن کا حل کثیر فریقی سفارتکاری کی اہمیت بڑھاتے ہیں: گوتیرش

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ کثیر فریقی نظام کو مضبوط کرنا ان کی ''اولین ترجیح'' ہے اور اس مقصد کے لیے 'ہمارے مشترکہ ایجنڈے' کی صورت میں عالمگیر تعاون اور مسائل پر قابو پانے کے کثیرفریقی طریق کار کو دوبارہ موثر بنانا ہو گا۔

سلامتی کونسل کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ کثیر فریقی نظام کو بین ریاستی جنگوں، دہشت گردی، منقسم اجتماعی سلامتی اور قیام امن کی راہ میں رکاوٹوں کی صورت میں آج جو مسائل درپیش ہیں وہ 76 سال پہلے اقوام متحدہ کے قیام کے وقت بھی موجود تھے۔

Tweet URL

انہوں نے کہا کہ ''سرد جنگ کے تاریک ترین دور میں اجتماعی فیصلہ سازی اور سلامتی کونسل میں متواتر بات چیت نے اجتماعی سلامتی کا نامکمل سہی مگر ایک فعال نظام برقرار رکھا جس نے بڑی طاقتوں کے مابین جنگ کو روکا اور آج بھی روکے ہوئے ہے۔''

'تنازعات میں ڈرامائی اضافہ'

تاہم، ان کا کہنا تھا کہ ''تنازعات ڈرامائی طور پر بڑھے ہیں۔''

انہوں ںے جنگیں لڑنے کے طریقوں، جنگ لڑنے والوں اور جنگی مقامات میں آنے والی بنیادی تبدیلیوں نیز سستے اور جدید مہلک ہتھیاروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ''انسانیت کے پاس خود کو پوری طرح فنا کرنے کی صلاحیت آ چکی ہے۔''

صورتحال کو مزید بگاڑنے میں موسمیاتی بحران اور غلط اطلاعات اور نفرت پر مبنی اظہار کو پھیلانے والی ٹیکنالوجی بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ ''سائبر سپیس، تجارتی ترسیلی نظام، مہاجرت، اطلاعات، تجارتی و مالیاتی خدمات اور سرماییہ کاری کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔''

انہوں نے کہا کہ ''عالمگیر تعاون کے نظام خود کو اس تبدیلی کے مطابق ڈھالنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہمیں اپنے ذرائع، اصولوں اور طریقہ ہائے کار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔''

امن کا ایجنڈا

یو این 75 کے اعلامیے کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے سفارشات پیش کیں جس کے لیے امن کے نئے ایجنڈے سے آغاز کرنا ہو گا جو وہ آئندہ برس اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو بھیجیں گے۔

سیکرٹری جنرل کے مطابق اس ''دور رس اور وسیع النظر'' ایجنڈے کے تحت مقامی، قومی، علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کو لاحق مسائل پر بات کی جائے گی اور یہ ہمیں اپنی سمت کا جائزہ لینے اور اسے تبدیل کرنے کا موقع فراہم کرے گا کیونکہ ''بظاہر معمول کے حالات یہ مطلب نہیں کہ سب کچھ ایسا ہی رہے گا۔

ایسی دنیا میں جہاں غیریقینی ہی واحد یقینی بات ہے، وہاں کا مطلب یہ ہے کہ معاملات تقریباً یقینی طور پر کہیں زیادہ خراب ہوں گے۔''

انقلابی اقدامات

اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ''بحیرہ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کے اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کا عالمگیر مسائل میں ثالثی کے حوالے سے اب بھی اہم کردار ہے۔'' انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ ''ایسے اختراعی طریقہ ہائے کار کو آگے بڑھائیں اور وسعت دیں۔''

انہوں نے بتایا کہ اس سال جنرل اسمبلی نے کئی اہم قراردادوں کی مںظوری دی جن میں یوکرین میں جاری جنگ، صحت مند ماحول میں جینے کے حق اور کونسل میں ویٹو کے استعمال سے متعلق قراردادیں بھی شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے کثیرجہتی نظام کے تناظر میں اقوام متحدہ کی معاشی و سماجی کونسل (ای سی او ایس او سی)، جی20 کے سربراہان ریاست و حکومت، اپنے اور عالمی مالیاتی اداروں کے مابین مجوزہ دو سالہ کانفرنس توجہ دلائی اور کہا کہ ''یہ عالمگیر نظم کی بہتر ہم آہنگی اور ایک ایسے عالمی مالیاتی نظام کی تخلیق کی جانب اہم قدم ہو گا جو آج کی دنیا کے لیے موزوں ہو۔''

انہوں ںے کہا کہ ''درپیش مسئلہ واضح ہے کہ ہمیں آنے والی نسلوں کو نئے سرے سے مضبوط بنائے گئے ایسے کثیر فریقی نظام کے ذریعے جنگ کی لعنت سے بچانا ہے جو موثر ہو، جس میں تمام ممالک کی بات سنی جائے اور سب کو ساتھ رکھا جائے۔''

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروشی نے سفیروں سے درخواست کی کہ وہ بات چیت اور سفارت کاری کو اپنی ترجیح بنائیں، سیاسی اختلافات کو سیاسی ارادے میں بدلیں۔
UN Photo/Loey Felipe
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروشی نے سفیروں سے درخواست کی کہ وہ بات چیت اور سفارت کاری کو اپنی ترجیح بنائیں، سیاسی اختلافات کو سیاسی ارادے میں بدلیں۔

فیصلہ کن لمحہ

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروشی نے سفیروں کو بتایا کہ دنیا ''تاریخ کے دوراہے'' پر کھڑی ہے جس میں ممالک کو باہمی تعلقات میں 75 برس سے رہنمائی مہیا کرنے والے بین الاقوامی قوانین، اصول، طریقہ ہائے کار اور روایات کو ایک ایسے وقت میں ان کی افادیت سے متعلق عمیق وجودی سوالات کا سامنا ہے جب دنیا کو رہنمائی کے لیے ان کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔''

انہوں نے کہا کہ ''کووڈ۔19 وبا سے بحالی، موسمیاتی بحران کے خلاف جدوجہد، طویل قرضے اور خوراک و توانائی کے حوالے سے ہنگامی حالات کے ہوتے ہوئے ایک بات واضح ہے کہ ''یہ عالمگیر مسائل کوئی ملک اکیلا حل نہیں کر سکتا۔

ان مسائل کا کثیرفریقی حل ہمیشہ ہماری واحد امید رہا ہے۔''

سلامتی کونسل کی ذمہ داری

تاہم بے عملی اور شدید ارضی سیاسی تقسیم نے سلامتی کونسل میں اس حوالے سے اقدامات اور پیش رفت کو روکے رکھا ہے۔

یہ یاد دلاتے ہوئے کہ کونسل سے توقع کی جاتی ہےکہ وہ ''تمام لوگوں کی بہتری کے لیے کام کرے گی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو برقرار رکھے گی''، انہوں ںے سوال کیا کہ ''کیا یہ اختلافات بین الاقوامی امن اور سلامتی کو قائم رکھنے کی آپ کی اجتماعی صلاحیت کو بے اثر کرتے رہیں گے؟''

انہوں نے یوکرین کی جنگ کو ''ناکام اجتماعی اقدام'' کی مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''ایک ایسے بحران کو کم کرنے کے لیے سلامتی کونسل میں ایک قرارداد بھی منظور نہیں ہو سکی جسے روکنے کے لیے اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آیا تھا۔''

'جمود توڑا جائے'

انہوں ںے لوگوں کا تحفظ اور بہبود یقینی بنانے، انسانی امداد کی فراہمی کی ضمانت دینے، مشمولہ امن عمل کو آگے بڑھانے اور جنگوں میں جنسی تشدد کی روک تھام یقینی بنانے کے لیے سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کے اکٹھے کام کرنے کی اہمیت واضح کی۔

جنرل اسمبلی کے صدر نے واضح کیا کہ ''جمود کا نتیجہ لاکھوں بچوں، خواتین، مردوں اور خاندانوں کے لیے امکانات کے خاتمے کی صورت میں نکلتا ہے جو اس کے نتائج بھگتتے ہیں۔ وہ طاقت کی حرکیات سے آگے بڑھ کر اقدامات کے لیے ہم پر بھروسہ کیے ہوئے ہیں۔''

اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے انہوں ںے سفیروں سے درخواست کی کہ وہ بات چیت اور سفارت کاری کو اپنی ترجیح بنائیں، سیاسی اختلافات کو سیاسی ارادے میں بدلیں تاکہ مسائل کا حل سامنے آ سکے اور اس چیز پر توجہ دیں جو ہمیں باہم متحد کرتی ہے۔''