انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ضرورتمندوں تک خوراک اور کھادوں کی فراہمی کے لیے ’بھرپور سفارتی کوششیں‘

سری لنکا میں کھادوں اور تیل کی کمیابی کی وجہ سے کھیت بیکار پڑے ہیں۔
© WFP/Josh Estey
سری لنکا میں کھادوں اور تیل کی کمیابی کی وجہ سے کھیت بیکار پڑے ہیں۔

ضرورتمندوں تک خوراک اور کھادوں کی فراہمی کے لیے ’بھرپور سفارتی کوششیں‘

امن اور سلامتی

روسی کمپنیوں کی عطیہ کردہ کھاد کی پہلی کھیپ ہالینڈ سے ملاوی روانہ ہو گئی ہے۔ یہ کھاد ایسے ممالک کو مہیا کی جا رہی ہے جو بڑھتے ہوئے عالمگیر غذائی عدم تحفظ سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ یہ بات اقوام متحدہ کے ترجمان نے منگل کو ایک بیان میں بتائی۔

ترجمان سٹیفن ڈوجاحک کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ نے 260,000 میٹرک ٹن کھاد کے عطیے کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ کھاد یورپی بندرگاہوں اور گوداموں میں پڑی تھی ''جس سے اب امدادی ضروریات پوری کرنے اور افریقہ میں فصلوں کے تباہ کن نقصان کو روکنے میں مدد ملے گی جہاں اس وقت بوائی کا موسم چل رہا ہے۔''

Tweet URL

20,000 ٹن کھاد پر مشتمل پہلی کھیپ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے خصوصی بحری جہاز ایم وی گرین وچ کے ذریعے منگل کو نیدرلینڈز سے روانہ کی گئی جو موزمبیق میں اتاری جائے گی اور پھر اسے خشکی سے گھرے ملک ملاوی کو بھیجا جائے گا۔

'مزید کھاد بھی آئے گی'

ڈوجاحک نے مزید کہا کہ ''آئندہ مہینوں میں براعظم افریقہ کے متعدد دیگر ممالک کو بھی کھاد کی ایسی ہی ترسیلات ہوں گی اور یہ کھیپ اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔''

رواں ماہ کے آغاز میں جب جولائی میں طے پانے والے معاہدے سے جنم لینے والے اور بحیرہ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کے کامیاب اقدام کے ساتھ طے پانے والے ایک سمجھوتے کا پہلی مرتبہ اعلان ہوا تو ڈبلیو ایف پی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دنیا کو غذا کی فراہمی کے عالمگیر بحران پر قابو پانے کے لیے ''مشترکہ کوششوں'' کی فوری ضرورت ہے جو یوکرین پر روس کے حملے کے باعث شدت اختیار کر چکا ہے۔

روس اور یوکرین دونوں ترقی پذیر دنیا کی مںڈیوں کو خوراک اور کھاد برآمد کرنے والے بڑے ملک ہیں اور ڈبلیو ایف پی نے کہا ہے کہ چھوٹے کسان بڑھتی قیمتوں، مہنگائی اور اشیا کی ترسیل کے عالمگیر سلسلوں میں آنے والی رکاوٹوں سے خاص طور پر شدید متاثر ہوئے ہیں۔

ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ ''ہم کھاد تک رسائی کے بین الاقوامی مسائل کو عالمگیر غذائی قلت میں تبدیل ہونے نہیں دے سکتے۔ کھاد کی مںڈیوں کو دوبارہ باہم مربوط کرنا بہت ضروری ہے۔''

عالمگیر غذائی تحفظ میں مددگار اقدام

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اپنے ترجمان کے ذریعے جاری کردہ بیان میں روس، ملاوی اور نیدرلینڈز کا شکریہ ادا کیا کہ وہ عالمگیر غذائی تحفظ میں بہتری لانے کے لیے یورپی یونین کے ساتھ قریبی اشتراک کرتے ہوئے ڈبلیو ایف پی کے ذریعے کھاد کی اس پہلی اہم امدادی کھیپ کی روانگی ممکن بنانے پر آمادہ ہوئے۔''

سٹیفن ڈوجاحک نے کہا کہ ''اقوام متحدہ نے ''تمام فریقین کے ساتھ کڑی سفارتی کوششیں کیں تاکہ یوکرین اور روس سے عالمی مںڈیوں کو ضروری خوراک اور کھادوں کی بلاروک و ٹوک برآمدات یقینی بنائی جا سکیں۔ یہ دونوں اشیا برآمدی پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں۔''

'دنیا کی نصف آبادی غذائی قلت کے دھانے پر'

دنیا کی قریباً 50 فیصد آبادی ایسی زرعی پیداوار پر انحصار کرتی ہے جس کی تیاری میں کھادیں استعمال ہوتی ہیں۔ 2019 کے بعد کھاد کی قیمتوں میں تقریباً 250 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے کسان زرعی اجناس پیدا کرنے کے قابل نہیں رہے۔

ڈوجاحک نے نائٹروجن سے بنائی جانے والی کھادوں کی مثال دی جن کی اِس سال سامنے آنے والی قلت کا نتیجہ آئندہ سال مکئی، چاول اور گندم جیسی بنیادی فصلوں کی پیداوار میں 66 ملین ٹن کمی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اتنی پیداوار سے 3.6 ارب لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں جو کہ دنیا کی تقریباً نصف آبادی ہے۔

ڈوجاحک کا کہنا تھا کہ ''کھادوں کی منڈیوں کو دوبارہ مربوط کرنا 2023 میں عالمگیر غذائی تحفظ یقینی بنانے کے لیے ایک اہم قدم ہے اور امریکہ اس مقصد کے حصول کے لیے تمام فریقین کے ساتھ مل کر ہر ممکن کوشش جاری رکھے گا۔''