انسانی کہانیاں عالمی تناظر

عالمی ادارہِ صحت کی طرف سے منکی پاکس کا نام بدلنے کی تجویز

ایم پاکس کے چھالے عام طور ہتھیلیوں پر نمودار ہوتے ہیں۔
© CDC
ایم پاکس کے چھالے عام طور ہتھیلیوں پر نمودار ہوتے ہیں۔

عالمی ادارہِ صحت کی طرف سے منکی پاکس کا نام بدلنے کی تجویز

صحت

ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ منکی پاکس کو اب 'ایم پاکس'  کے نام سے جانا جائے گا۔ یہ فیصلہ اس بیماری کے نام سے وابستہ نسل پرستانہ اور رسوا کن زبان کے باعث کیا گیا ہے۔

منکی پاکس کا نام بدلنے کے فیصلے کے لیے دنیا بھر کے ماہرین کے ساتھ مشاورت کی گئی ہے۔ منکی پاکس کا نام ختم ہونے سے پہلے ایک سال تک یہ دونوں اصطلاحات ایک ساتھ استعمال کی جائیں گی۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کے ادارے نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''اس اقدام سے عالمگیر وباء کے دوران نام کی تبدیلی سے پیدا ہونے والی الجھن کے بارے میں ماہرین کے خدشات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

خدشات اور تبدیلی

ایم پاکس وائرس سے پھیلنے والی ایک  غیر معمولی بیماری ہے جو بنیادی طور پر وسطی اور مغربی افریقہ کے استوائی بارانی جنگلات کے علاقوں میں سامنے آتی ہے لیکن رواں سال اس کی وبائیں دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی پھوٹی ہیں۔

اس دوران 110 متاثرہ ممالک میں اس بیماری کے 80,000 سے زیادہ مریض سامنے آئے جن میں 55 اموات ہوئیں۔

جب حالیہ وباء پھیلنا شروع ہوئی تو ڈبلیو ایچ او نے اس حوالے سے آن لائن، دیگر جگہوں پر اور بعض لوگوں کی جانب سے نسل پرستانہ اور رسوا کن زبان استعمال کیے جانے کا مشاہدہ کیا اور اسے اس بارے میں اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔

ادارے نے کہا ہے کہ ''متعدد سرکاری و نجی اجلاسوں میں کئی لوگوں اور ممالک نے اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا اور ڈبلیو ایچ او سے کہا کہ وہ اس بیماری کو کسی اور نام سے پکارے جانے کا طریقہ تجویز کرے۔''

بیماریوں کو نیا نام دینے کا طریقہ

اس بیماری کو منکی پاکس کا نام 1970 میں دیا گیا تھا۔ اس سے 12 برس پہلے یہ بیماری پھیلانے والا وائرس پنجروں میں بند بندروں میں دریافت ہوا تھا۔

ڈبلیو ایچ او نے بیماریوں کو نام دینے کے حوالےسے بہترین طریقہ ہائے کار پہلی مرتبہ 2015 میں شائع کیے تھے۔

ان رہنما ہدایات میں تجویز کیا گیا ہے کہ نئی بیماریوں کو نام دیتے وقت یہ مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ ان کے تجارت، سفر، سیاحت اور جانوروں کی بہبود پر غیرضروری منفی اثرات کم سے کم ہوں۔

یہ نام ایسے ہونے چاہئیں کہ کوئی بھی ثقافتی، سماجی، قومی، علاقائی، پیشہ وارانہ یا نسلی گروہ ان سے ناراض نہ ہو۔

مشاورتی عمل

ڈبلیو ایچ او ایک مشاورتی عمل کے ذریعے نئی اور کبھی کبھار موجودہ بیماریوں کو بھی نئے نام تفویض کرتا ہے۔

منکی پاکس کو نیا نام دینے کے لیے طبی اور سائنسی ماہرین، 45 ممالک کے سرکاری نمائندوں اور عام لوگوں سے آرا لی گئیں۔

ان مشاورتوں اور ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کے ساتھ مزید بات چیت کی بنیاد پر ادارے نے ایم پاکس نام اختیار کرنے کی سفارش کی ہے۔

بیماری کو یہ نام دیتے وقت منطقی وجوہات، سائنسی موزونیت، اس کے موجودہ استعمال کی حد، تلفظ، نام کا مختلف زبانوں میں استعمال، جغرافیائی یا حیاتیاتی حوالہ جات کی عدم موجودگی اور تاریخی سائنسی معلومات کی بازیافت میں آسانی کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او اپنی بات چیت اور رابطوں میں ایم پاکس کی اصطلاح استعمال کرے گا اور دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔