انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پناہ گزین سے اولمپیئن بننے والی خاتون کی زندگی پر نیٹفِلکس کی فلم

شامی پناہ گزین اور مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کی خیر سگالی سفیر یسریٰ مردینی نے اقوام متحدہ ہیڈکوراٹرز میں فلم ’دی سویمرز‘ کی سکریننگ میں شرکت کی۔
© UNHCR/Jasper Nolos
شامی پناہ گزین اور مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کی خیر سگالی سفیر یسریٰ مردینی نے اقوام متحدہ ہیڈکوراٹرز میں فلم ’دی سویمرز‘ کی سکریننگ میں شرکت کی۔

پناہ گزین سے اولمپیئن بننے والی خاتون کی زندگی پر نیٹفِلکس کی فلم

مہاجرین اور پناہ گزین

اقوام متحدہ میں مہاجرین کے ادارے یو این ایچ سی آر نے جب تیراکی کر کے جنگ زدہ شام سے جان بچا کر آنے والی دو بہنوں کی متاثر کن حقیقی داستان پر مبنی فلم کی نمائش کی تو اقوام متحدہ کی ایک عہدیدار نے اسے دنیا بھر میں گھربار چھوڑنے پر مجبور 10 کروڑ سے زیادہ لوگوں کی ''طاقت، ہمت اور استقامت کا ثبوت'' قرار دیا۔

اقوام متحدہ میں عالمگیر رابطوں کے شعبے کی سربراہ میلیسا فلیمنگ نے نیٹفلِکس کی فلم ''دی سویمرز'' کو سبھی کے لیے مہاجرین کے ساتھ یکجہتی کے لیے ''مستعد ہونے کی پکار'' اور ایک ''بہت بڑا خوش آئند قدم'' بھی قرار دیا ہے۔

اگرچہ یُسریٰ اور سارا مردینی 2015 میں شام کی خانہ جنگی سے فرار ہونے پر مجبور ہوئی تھیں تاہم نیٹ فلِکس کی جانب سے جاری ہونے والا ان کے حالات زندگی پر مبنی ڈرامہ دیکھ کر واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی بہادری اور انسانی جذبہ بھی اپنے ساتھ لائیں جس کی بدولت یسریٰ نے دو اولمپک کھیلوں میں حصہ لیا۔

Tweet URL

نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں اس ڈرامے کی نمائش کے موقع پر میلیسا فلیمنگ نے واضح کیا کہ ''چھوٹی سی عمر میں ہی وہ سمندر میں خطرے سے دوچار لوگوں کی جان بچا کر لاکھوں لوگوں کی ہیرو بن گئیں۔ اگرچہ انہیں اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنا پڑی لیکن وہ استقامت اور محنت سے اپنے خوابوں کی تعبیر پانے میں کامیاب رہیں۔''

مشترکہ انسانیت

'دی سویمرز' ان دونوں نوجوان خواتین کے وقار، مضبوطی اور بے پناہ صلاحیت کی عکاسی کرتے ہوئے تمام پناہ گزینوں کی امنگوں کو اظہار مہیا کرتی ہے۔

اس ماہ کے آغاز میں فلم کی آزمائشی نمائش کے موقع پر اقوام متحدہ کی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ''اس سے ناظرین کے دل میں ناصرف بے گھر ہونے پر مجبور لوگوں کے لیے ہمدردی پیدا ہوتی ہے بلکہ انہیں پناہ گزینوں اور مہاجرین کی مشکلات کا بخوبی اندازہ بھی ہو جاتا ہے۔''

اگرچہ اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کا ادارہ یو این ایچ سی آر اور دیگر جنگ، تشدد اور مظالم سے جان بچا کر نکلنے والے لوگوں کی زندگیوں اور روزگار کے تحفظ کے لیے کئی دہائیوں سے کام کرتے چلے آئے ہیں تاہم فلیمنگ نے اعتراف کیا کہ ''جوں جوں بے گھری کا مسئلہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو رہا ہے تو ایسے میں یہ کام بھی مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔''

عزم و ہمت کی داستان

یہ حقیقی داستان تیراکی کے مقابلوں میں حصہ لینے والی نوعمر بہنوں سے شروع ہوتی ہے جو شام میں خانہ جنگی کے دوران ملک سے فرار ہو جاتی ہیں۔

فلم میں ان کا یورپ کی جانب خطرناک سفر دکھایا گیا ہے جب سمندر کے درمیان میں ان کی کشتی کا انجن بند ہو جاتا ہے اور دونوں بہنیں دو دیگر لوگوں کے ساتھ پانی میں چھلانگ لگا دیتی ہیں۔ اس دوران وہ کئی گھنٹے تیراکی کرتے ہوئے ڈوبتی کشتی کو اپنی رہنمائی میں بحفاظت ساحل پر لا کر تقریباً 18 لوگوں کی جان بچا لیتی ہیں۔

فلم میں یسریٰ کی داستان آگے بڑھتی رہتی ہے جو 2016 میں ریو اولمپکس میں حصہ لیتی ہیں۔ اس کے بعد وہ 2020 میں ہونے والے ٹوکیو اولمپکس میں بھی شریک ہوتی ہیں جبکہ اس سے پہلے 2017 میں 19 سال کی عمر میں یو این ایچ سی آر کی کم عمر ترین خیرسگالی سفیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کرتی ہیں۔

پناہ گزین کون ہے؟

دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کی طرح یسریٰ بھی لفظ 'پناہ گزین' کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھیں یہاں تک کہ انہیں خود اپنا گھر چھوڑنا پڑا اور وہ پناہ گزین بن گئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ''جب میں شام میں رہ رہی تھی تو کسی نے مجھے اس کا مطلب نہیں بتایا تھا۔''

''یہ فلم اس بحث کو جنم دے گی کہ پناہ گزین کون ہوتا ہے اور ہم کیا تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔''

یو این ایچ سی آر کے نیویارک دفتر کی ڈائریکٹر روون مینکڈیویلا نے کہا ہے کہ یہ فلم ''ایک طاقتور یاد دہانی کی حیثیت رکھتی ہے کہ اگرچہ پناہ گزین وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں ںے تنازعات، جنگوں یا مظالم سے جان بچا کر اپنا گھر بار چھوڑا ہو اور اور انہیں مدد کی ضرورت ہو لیکن وہ اپنی غیرمعمولی صلاحیت اور متنوع ہنر بھی اپنے میزبان معاشروں میں لے کر آتے ہیں۔''

بدلتے تاثرات

انہوں ںے زور دے کر کہا کہ مہاجرین کے بارے میں نقطہ نظر میں تبدیلی سے پہلے لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ کون ہیں۔

یو این ایچ سی آر کی خیرسگالی سفیر نے واضح کیا کہ اس مقصد کے لیے ''نظام ہائے تعلیم میں تبدیلی لانا اور انہیں مزید روادار بنانا ہو گا اور ان کے ذریعے مہاجرین اور پناہ گزینوں کی داستانیں بیان کرنا ہوں گی۔''

یسریٰ پُراعتماد تھیں کہ 'دی سویمرز' لوگوں کو مہاجرین کی صلاحیت اور اہمیت سے واقفیت حاصل کرنے میں مدد دے گی اور یہ یاد دلائے گی کہ ''ہمیں ہر ایک سے یکساں سلوک کرنا ہے۔''

اس موقع پر ویلز کی معروف مصری نژاد ہدایت کارہ سیلی الحسینی نے امید ظاہر کی کہ یہ فلم ''پناہ گزینوں اور نوجوان عرب خواتین کے بارے میں فرسودہ دقیانوسی تصورات'' کو تبدیل کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین اور پناہ گزین بھی دوسروں جیسے ہی لوگ ہیں ''جنہیں محفوظ اور بہتر زندگی کی تلاش میں ناقابل یقین فیصلے کرنا پڑے۔''

یو این ایچ سی آر کی ڈائریکٹر روون مینکڈیویلا، فلم کی مصنفہ اور ہدایتکار سیلی الحسینی، یسریٰ الحسینی، اداکار شوایگ ہوفر، اور نیٹفلکس کی ریشلین بینوینستے اقوام متحدہ کے نیو یارک میں صدر دفتر میں فلم ’دی سویمرز‘ کی خصوصی نمائش کے موقع پر۔
© UNHCR/Jasper Nolos
یو این ایچ سی آر کی ڈائریکٹر روون مینکڈیویلا، فلم کی مصنفہ اور ہدایتکار سیلی الحسینی، یسریٰ الحسینی، اداکار شوایگ ہوفر، اور نیٹفلکس کی ریشلین بینوینستے اقوام متحدہ کے نیو یارک میں صدر دفتر میں فلم ’دی سویمرز‘ کی خصوصی نمائش کے موقع پر۔

پناہ گزینوں کی وکالت

یسریٰ کی حیران کن داستان دسیوں لاکھوں میں ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلے 103 ملین ایسے لوگوں میں سے ایک فرد کی داستان ہے جو اِس وقت بے گھر ہونے پر مجبور ہیں۔

اگرچہ ہر شخص اولمپک کھیلوں میں 100 میٹر بٹرفلائی تیراکی نہیں کر سکتا لیکن یسریٰ بدستور اپنی صلاحیت اور کامیابی کو پناہ گزینوں کے لیے آواز اٹھانے اور ان کے بارے میں لوگوں کے رویوں پر اثرانداز ہونے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ''اولمپک کھیلوں نے پناہ گزین ہونے کے حوالے سے میری سوچ کو تبدیل کر دیا ہے۔ ''

''جب میں ریو اولمپک کھیلوں کے موقع پر سٹیڈیم میں گئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ میں بہت سے لوگوں کو متاثر کر سکتی ہوں۔ مجھے احساس ہوا کہ 'پناہ گزین' محض ایک لفظ ہے اور اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ اس سے کیا مراد لیتے ہیں۔''

' یہ محض آغاز ہے'

یسریٰ تیراکی کے علاوہ یو این ایچ سی آر کی خیرسگالی سفیر کے طور پر کام جاری رکھنے، کھیلوں اور تعلیم کے بارے میں ایک خیراتی تنظیم قائم کرنے، مزید تعلیم حاصل کرنے اور غالباً اداکاری کرنے کی خواہش مند ہیں۔

ہالی وڈ میں نمایاں اہمیت پانے کے باوجود انہوں ںے مہاجرین اور پناہ گزینوں کے لیے آواز اٹھانا بند نہیں کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ''اب بھی پناہ گزینوں کے لیے بہت کچھ تبدیل کرنا باقی ہے۔ یہ اختتام نہیں ہے بلکہ یہ محض آغاز ہے۔''