انسانی کہانیاں عالمی تناظر

مراکش طرز کی بقائے باہمی اور افریقہ کے مثبت عالمی کردار پر فاس فورم کا اختتام

میگل اینجل موراٹینوز اور مراکش کے وزیر خارجہ ناصر بوریطہ فاس فورم کی مشترکہ اختتامی پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔
UN Photo/May Yaacoub
میگل اینجل موراٹینوز اور مراکش کے وزیر خارجہ ناصر بوریطہ فاس فورم کی مشترکہ اختتامی پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔

مراکش طرز کی بقائے باہمی اور افریقہ کے مثبت عالمی کردار پر فاس فورم کا اختتام

ثقافت اور تعلیم

تہذیبوں کے اتحاد کے نوویں عالمی فورم نے آج مراکش کے شہر فاس میں اپنا کام مکمل کیا۔ اس موقع پر مکالمے اور رواداری کی اقدار پر زور دیا گیا اور عالمی سطح پر مثبت کردار کی حیثیت سے افریقہ کی اہمیت کو بھی واضح کیا گیا۔

اقوام متحدہ کے تہذیبوں کے اتحاد کے اعلیٰ سطحی نمائندے اور نائب سیکرٹری جنرل میگل اینجل موراٹینوز نے سلطنت مراکش کے وزیر برائے خارجہ امور، افریقی تعاون و تارکین وطن ناصر بوریطہ کے ساتھ ایک مشترکہ اختتامی پریس کانفرنس میں اس فورم کے پروگراموں اور اس کے نتائج کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے اس دوران بڑے پیمانے پر اور اعلیٰ سطحی شخصیات کی شرکت کو بھی سراہا جس کی بدولت دو روزہ فورم میں مکالمے کا معیار بلند رہا۔

Tweet URL

لوگ امن کے متلاشی ہیں

میگل اینجل موراٹینوز نے صحافیوں کو بتایا کہ ''نہایت پیچیدہ جغرافیائی سیاسی تناظر میں ہم نے یہاں فاس میں امن، افہام و تفہیم، باہمی احترام اور اکٹھے رہنے کے عزم پر بات کی۔'' ان کا کہنا تھا کہ ''یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہے۔ انہوں نے اس کا خیرمقدم کیا۔ وہ امن کے متلاشی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔''

اعلیٰ سطحی نمائندے نے فورم میں منظور کیے جانے والے اعلامیے کو ''عالمی برادری بشمول تہذیبوں کے اتحاد کے لیے لائحہ عمل'' قرار دیتے ہوئے مراکش کی مثال دے کر کہا کہ اسے سب کے لیے باعث تحریک ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مراکش کے طریقِ کار نے باہمی احترام، بھائی چارے، امن اور افہام و تفہیم کی ہنگامی ضروریات کے حوالے سے ٹھوس نتائج دیے ہیں۔

یہ دنیا کے لیے مکالمے، افہام و تفہیم اور رواداری کی اقدار کی توثیق کا بروقت موقع ہے۔

اس موقع پر مراکش کے وزیر برائے خارجہ امور ناصر بوریطہ کا کہنا تھا کہ ''اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کی موجودگی سے اس اجلاس کو خاص اہمیت حاصل ہوئی ہے۔'' انہوں نے فاس میں ہونے والے اس اجلاس کو ناصرف شرکت کے اعتبار سے بلکہ اس میں ہونے والے مکالمے اور بحث و مباحثوں کی نوعیت کے حوالے سے بھی کامیابی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ''یہ اجلاس ایسے موقع پر ہوا ہے جب دنیا کو مکالمے، افہام و تفہیم اور رواداری کی قدروں کی توثیق درکار ہے۔''

انہوں نے کہا کہ ''آج عالمی حالات تقاضا کرتے ہیں کہ ہم معقولیت اور دانائی پر دھیان دیں۔ مکالمے کی اقدار بنیادی اقدار ہیں اور مفادات، مذاہب اور نسلوں میں اختلاف کے باوجود انسانیت میں بہت کچھ مشترک ہے۔''

موراٹینوز کی جانب سے بیان کردہ مراکش کی مثال کے حوالے سے بوریتا نے بتایا کہ مراکش کون سے اصولوں اور اقدار کا حامی ہے اور فاس کا شہر کس کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مراکش نے جو کامیابی حاصل کی وہ دنیا بھر میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ مراکش نے صدیوں سے ہم آہنگی اور بقائے باہمی کے حوالے سے قومی سطح پر جو کچھ کیا ہے وہ دوسرے خطوں کے لیے بھی تحریک کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔

مہاجرت سے متعلق اقوام متحدہ کے عالمی ادارے (آئی او ایم) کے ڈائریکٹر جنرل انتونیو ویٹورینو فاس فورم میں شریک تھے۔
UN Photo
مہاجرت سے متعلق اقوام متحدہ کے عالمی ادارے (آئی او ایم) کے ڈائریکٹر جنرل انتونیو ویٹورینو فاس فورم میں شریک تھے۔

'اعلامیہ ہی کافی نہیں'

مہاجرت سے متعلق اقوام متحدہ کے عالمی ادارے (آئی او ایم) کے ڈائریکٹر جنرل انتونیو ویٹورینو نے یو این نیوز کو انٹرویو میں بتایا کہ آئی او ایم دنیا بھر کے 80 ممالک میں موجود ہے ''لیکن مہاجرین کے تحفظ اور انہیں مدد دینے کے لیے براعظم افریقہ میں ہم بلاشبہ نہایت اہم اقدامات کر رہے ہیں۔''

انہوں نے واضح کیا کہ افریقہ کے 80 فیصد مہاجرین اس براعظم کے ایک ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں جاتے ہیں۔ ''اس سے براعظم بھر میں آئی او ایم کے کام کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہاں افریقہ میں تہذیبوں کے اتحاد کا یہ پہلا اجلاس مہاجرین کے تحفظ کے سلسلے میں ہمارے عزم کی توثیق کا ایک اہم موقع ہے۔''

ویٹورینو سے سوال کیا گیا کہ وہ تہذیبوں کے اتحاد کی جانب سے منعقدہ 9ویں عالمی فورم میں منظور کردہ اعلامیے کو کیسے دیکھتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ''اعلامیے سیاسی اعتبار سے ہمیشہ اہم ہوتے ہیں لیکن یہی کافی نہیں ہیں۔ ہمیں اعلامیے پر عملی اقدامات کو آگے بڑھانا ہے اور ہم اس کے لیے پُرعزم ہیں۔''

انہوں نے کہا کہ ''آئی او ایم کا مقصد ہر روز ہر جگہ ایسے لوگوں کے ساتھ مل کر، جنہیں ہماری ضرورت ہے، اعلامیے کی بنیادی باتوں کو ٹھوس اقدامات کی شکل دینا، مہاجرین کا تحفظ کرنا، محفوظ، منظم اور باضابطہ مہاجرت میں مدد دینا اور مہاجرین کے بنیادی حقوق پر حملے کے مترادف انسانی سمگلنگ کے خلاف اقدامات کرنا ہے۔''

فاس فورم میں شریک لبنان کے علی محمود۔
UN Photo
فاس فورم میں شریک لبنان کے علی محمود۔

نسلوں کے درمیان مکالمہ

فاس کی جامعہ یورومید میں ہونے والی دیگر سرگرمیوں میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 100 نوجوان ''اپنے مطلوبہ مستقبل'' کے بارے میں بات کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ انہوں ںے بین انسلی مکالمے کی ضرورت پر زور دیا اور ان فوائد پر گفتگو کی جو نوجوان نسل نفرت پر مبنی ابلاغ کو روکنے کے حوالے سے پیش کر سکتی ہے۔

فورم کے موقع پر نوجوانوں کے ایک پروگرام میں شرکت کرنے والے لبنان کے علی محمد نے یو این نیوز کو بتایا کہ وہ اور 'ادیان' نامی ایک انجمن میں ان کے ساتھی نفرت پر مبنی باتوں اور لبنان کے معاشرے پر ان کے نفسیاتی یا مادی اثرات کو مسترد کرنے کے لیے ایک پروگرام پر کام کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ورکشاپوں اور مہمات کا انعقاد کیا جا رہا ہے جن میں لبنان کے معاشرے کے تمام طبقات کو آگاہی دی جاتی ہے۔

 فاس فورم میں وزارتی سطح کے تقریباً 42 شرکا، علاقائی تنظیموں اور اداروں کے 90 سربراہان اور 12 سابق ریاستی یا حکومتی سربراہوں نے شرکت کی جسے مراکش کے وزیر خارجہ نے اتحاد کے اجلاسوں میں ایک اہم موقع قرار دیا ہے۔