کاپ 27: مذاکرات اب تک بے نتیجہ، انتونیو گوتیرش نے کہا توقعات پر پورا اترنا ضروری
کاپ 27 آئندہ چوبیس گھنٹوں میں مکمل ہو جائے گی تاہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک میں 'نقصان اور تباہی' سمیت کئی اہم امور پر بدستور عدم اتفاق پایا جاتا ہے۔
انتونیو گوتیرش ںے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ دور حاضر کے ہنگامی تقاضوں کو پورا کریں اور انسانیت کو درپیش سب سے بڑے مسئلے کو حل کرنے کے حقیقی طریقوں پر اتفاق رائے پیدا کریں۔
شرم الشیخ انٹرنیشنل کانفرنس سنٹر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ ''کرہ ارض کے شمال اور جنوب، اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں کے مابین اعتماد کی واضح کمی پائی جاتی ہے۔ اب ایک دوسرے پر تنقید کا وقت نہیں رہا۔ الزام تراشی باہمی یقینی تباہی کا نسخہ ہے۔''
اقوام متحدہ کے سربراہ نے ممالک پر زور دیا کہ وہ ایسے بامعنی اقدامات کریں جن کی لوگوں اور ہماری زمین کو اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ''دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے اور اس کا سادہ سا پیغام ہے کہ: اٹھ کھڑے ہوں اور عملی قدم اٹھائیں۔''
’نقصان اور تباہی‘ پر عملی اقدام
گوتیرش نے عالمی رہنماؤں کو یاد دہانی کرائی کہ دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات معیشتوں اور معاشروں کو تباہ کیے دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ''اعتماد کی بحالی کا مؤثر ترین طریقہ یہ ہے کہ ہم نقصان و تباہی اور ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے معاملے پر ایک پُرعزم اور قابل بھروسہ معاہدہ کریں۔ نقصان و تباہی پر قابو پانے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے معاملے پر بات چیت کا وقت گزر چکا ہے۔ اب ہمیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے موسمیاتی کانفرنس میں مذاکرات کاروں پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کے ٹھوس حل سامنے لائیں جو کہ اس سال اقوام متحدہ کے موسمیاتی کنونشن کے فریق ممالک کی اس کانفرنس (کاپ) میں زیربحث کٹھن ترین مسائل میں سے ایک ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے مذاکرات کاروں سے یہ بھی کہا کہ وہ ایک واضح پیغام بھیجیں کہ اس بحران سے بری طرح متاثر ہونے والوں کی آوازیں سنی جا رہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ان کی آنکھوں کے سامنے عالمی حدت اور سمندری سطح میں اضافے کے اثرات کا شکار ہو رہے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ''ترقی پذیر ممالک کو درپیش مسئلے کی ہنگامی نوعیت، وسعت اور خرابی پر غور کیا جائے۔ ہم ان لوگوں کو موسمیاتی انصاف کی فراہمی سے انکار نہیں کر سکتے جن کا موسمیاتی بحران پیدا کرنے میں بہت کم کردار ہے جبکہ وہ اس سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔''
اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نقصان و تباہی کے مسئلے کو اس کے باقاعدہ ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا ہے۔
قدرتی آفات سے بری طرح متاثر ہونے والے غیرمحفوظ ممالک کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے ایک نئی مالیاتی سہولت کی تخلیق مذاکراتی بلاک کی جانب سے کیا جانے والا ایک اہم مطالبہ ہے۔ اس بلاک کو گروپ آف 77 بھی کہا جاتا ہے جس میں تقریباً تمام ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی ہے۔
قابل تجدید توانائی: جہنم کی راہ سے واپسی کا ذریعہ
سیکرٹری جنرل نے ایک اور اہم مسئلے پر بات بھی کہ جو گزشتہ ایام میں موسمیاتی کارکنوں کے لیے پریشانی کا باعث رہا ہے۔ یہ مسئلہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے عزم کو برقرار رکھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ''1.5 ڈگری کے ہدف کا مطلب محض اس ہدف کو قائم رکھنا نہیں بلکہ لوگوں کو زندہ رکھنا بھی ہے۔ عالمی برادری 1.5 ڈگری کے ہدف کو برقرار رکھنے کی خواہش مند ہے لیکن ہمیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ یہ عزم کاپ 27 کے نتائج میں بھی عیاں ہو۔'' ان کا کہنا تھا کہ اس وقت معدنی ایندھن کی کمپنیوں میں آنے والی وسعت ''انسانیت کو ہائی جیک کر رہی ہے۔''
گوتیرش نے قابل تجدید توانائی اور موسمیاتی یکجہتی سے متعلق عالمگیر معاہدے کی اہمیت کو واضح کیا جس کے تحت ترقی پذیر ممالک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے بڑھ چڑھ کر کام کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ''ایک ایسے معاہدے کی ضرورت ہے جس کی بدولت ترقی یافتہ ممالک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے میں پیش پیش ہوں۔ یہ ایسا معاہدہ ہو جس میں عالمی مالیاتی اداروں اور نجی شعبے کے ساتھ مل کر ترقی پذیر معیشتوں کو قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے لیے مالیاتی و تکنیکی مدد فراہم کی جائے۔''
انتونیو گوتیرش نے گزشتہ ہفتے کاپ 27 کی افتتاحی تقریب میں دیے گئے اپنے ایک طاقتور پیغام کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع ''موسمیاتی جہنم کی راہ سے واپسی کا ذریعہ'' ہیں۔
مالی وسائل کی فراہمی
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کوپن ہیگن میں ہونے والی کاپ 15 میں کیے گئے وعدے کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالر کے مالی وسائل کی فراہمی کے لیے بھی کہا۔
انہوں نے فریقین سے کہا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے اقدامات کے لیے متفقہ طور پر اپنی سرمایہ کاری کو دگنا کریں اور کثیرفریقی ترقیاتی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں میں اصلاحات لائیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ''ترقی پذیر ممالک کو قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مضبوطی پیدا کرنے کے لیے درکار مدد مہیا کرنا ہو گی۔''
وقت گزر رہا ہے
آخر میں انہوں نے مذاکرات کاروں کو یاد دلایا کہ ''موسمیاتی گھڑی کی سوئیاں حرکت میں ہیں'' اور ان کے پاس کچھ کرنے کا موقع ہے اس لیے انہیں فوری قدم اٹھانا ہو گا۔
اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ''ہم نے خود کو درپیش مسائل کے حل، ضیاع اور نقصان کے معاملے میں عملی اقدامات، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی پر اتفاق کیا ہے۔''
جمعرات کو کاپ 27 کی صدارت کی جانب سے حتمی فیصلے کا مسودہ یا 'کوَر ٹیکسٹ' شائع کیا گیا۔ تاہم غیرسرکاری تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ 20 صفحات پر مشتمل یہ دستاویز اب بھی محض امکانات کی فہرست ہے جسے مدون کیا جانا چاہیے۔
اس کے موجودہ مسودے میں 1.5 ڈگری کے ہدف کی بات کرتے ہوئے سائنس کا حوالہ دیتے ہوئے کوئلے سے توانائی کا حصول بتدریج ختم کرنے کے لیے گلاسگو کلائمیٹ پیکٹ کا اعادہ کیا گیا ہے تاہم اس میں تیل اور گیس کا تذکرہ شامل نہیں ہے۔ اس میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے فراہم کیے جانے والے مالی وسائل کو دگنا کرنے کی بات بھی کی گئی ہے اور ایجنڈے میں ضیاع و نقصان کے مسئلے کی شمولیت کا خیرمقدم کیا گیا ہے لیکن اس میں ایک نئی مالیاتی سہولت کے قیام کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
عوامی اجلاس
جمعرات کو سول سوسائٹی کے سیکڑوں نمائندے کاپ 27 کے مکمل اجلاس میں شامل ہو گئے اور انہی عملی نکات کا ذکر کرتے ہوئے موسمیاتی انصاف کا مطالبہ کیا جن کا بعد ازاں سیکرٹری جنرل نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے تذکرہ کیا تھا۔
موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات میں روحانیت کے اہم کردار کی عکاسی کے طور پر اس تقریب کے آغاز میں برازیل کے مقامی باشندوں کی جانب سے دعا کی گئی۔
ان لوگوں کے گروہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ''انسانوں اور غیرانسانوں سمیت ہم سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہر شے مقدس ہے اور ہر تخلیق منڈی کا حصہ نہیں ہو سکتی۔ فطرت زندگی ہے۔''
عوامی اجلاس کے نام سے معروف یہ اجتماع ہر سال اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنسوں کے موقع پر منعقد ہوتا ہے۔ اس سال دیگر کے علاوہ دنیا بھر کے مقامی باشندوں کے نمائندے، خواتین، نوجوان اور کارکن اس اجلاس کا نمایاں حصہ تھے۔
اس موقع پر ایک کے بعد دوسرے کارکن نے اپنا نقطہء نظر اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنا تجربہ بیان کیا اور انسانی حقوق پر بات کی جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ حالیہ بحران میں یہ حقوق پامال ہو رہے ہیں۔
نوجوانوں کے رہنما نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''کرہ ارض کے شمالی اور جنوبی حصوں کی نمائندگی کرنے والے غیرمعمولی نوجوان باہم یکجا ہو کر عملی اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں امید سے کہیں بڑھ کر درکارہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بااختیار لوگ ہماری بات سنیں اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے طریقوں پر عمل کریں۔''
انصاف کے لیے جلوس اور دھرنا
اجلاس کے بعد تمام شرکا ہال سے باہر چلے گئے اور شرم الشیخ کنونشن سنٹر کے بیرونی حصے میں جلوس نکالا جس کا اختتام ایک دھرنے پر ہوا جہاں انہوں نے 'موسمیاتی انصاف کے لیے کاپ 27 کا عوامی اعلامیہ' پڑھا۔
موقع پر موجود درجنوں تنظیموں کی مںظور کردہ یہ دستاویز ''نظام میں تبدیلی'' کے مطالبے پر مبنی ہے جس کا مقصد قابل تجدید توانائی کے ایسے نظام کی جانب منصفانہ منتقلی یقینی بنانا جو پوری طرح نوجوانوں کی ملکیت ہو، 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لا کر موسمیاتی قرض چکانا اور ضیاع و نقصان سے نمٹنا، معدنی ایندھن پر انحصار کا بتدریج خاتمہ کرنا اور سول سوسائٹی کے لیے محفوظ اور قابل عمل ماحول یقینی بنانا ہے۔
نمیبیا سے تعلق رکھنے والی ایک مقامی ماحولیاتی کارن ماریا شیکونگو نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''میں اس لیے یہاں آئی ہوں کہ مجھے غصہ ہے۔ میرے ملک کے لوگ پہلے ہی گزشتہ دہائی سے جاری خشک سالی سے متاثر ہیں۔ میرے لوگوں نے گزشتہ دس سال سے بارش نہیں دیکھی۔ ان کا روزگار پہلے ہی متاثر ہو چکا ہے۔''
شیکونگو کا کہنا تھا کہ نمیبیا اس وقت براعظم افریقہ کے جنوبی حصے کے خشک ترین ممالک میں سے ایک ہے اور تاحال عالمی رہنما یہ بحث کر رہے ہیں کہ آیا انہیں ضیاع اور نقصان کا ازالہ کرنا چاہیے یا نہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ''ہماری حکومتیں اپنے لوگوں کی مدد کرنے کے لیے قرض لیے جا رہی ہیں جبکہ ہم پر موسمیاتی بحران کی بہت کم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ نمیبیا بھاری مقدار میں کاربن جذب کر رہا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کرہ ارض کے شمالی ممالک موسمیاتی ازالے کے لیے ہمارے مقروض ہیں۔