کاپ 27: حیاتیاتی بوقلمونی کا تحفظ پیرس معاہدے کی پاسداری
اگرچہ کئی سال تک موسمیاتی بحران اور حیاتیاتی تنوع کے بحران کو الگ الگ مسائل کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے، تاہم جیسا کہ بدھ کو کاپ 27 میں واضح کیا گیا، حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے فوری تحفظ اور بحالی کے بغیر عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کا کوئی قابل عمل طریقہ نہیں ہے۔
حیاتیاتی تنوع پر اقوام متحدہ کے کنونشن (سی بی ڈی) کی ایگزیکٹو سیکرٹری الزبتھ مریما نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ان دونوں مسائل کو ایک ہی طرح سے دیکھا جانا چاہیے اور کسی کو دوسرے سے زیادہ اہم مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ سی بی ڈی حیاتیاتی تنوع کو تحفظ دینے کا بین الاقوامی قانونی معاہدہ ہے جس کی 196 ممالک نے توثیق کر رکھی ہے۔
شرم الشیخ میں جاری عالمی موسمیاتی کانفرنس میں 'حیاتیاتی تنوع کا دن' مونٹریال میں سی بی ڈی کے ریاستی فریقین کے اعلیٰ سطحی اجلاس سے محض دو ہفتے پہلے آیا ہے۔ اس اجلاس کا مقصد حیاتی تنوع کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنا ہے۔
پیرس معاہدے کے چار معماروں بشمول موسمیاتی تبدیلی سے متعلق امور پر اقوام متحدہ کے شعبے کی سابق سربراہ کرسٹیانا فیگریز نے عالمی رہنماؤں سے باقاعدہ طور پر کہا ہے کہ وہ حیاتی تنوع سے متعلق آئندہ کاپ 15 میں اس موضوع پر ایک 'پُرعزم اور انقلابی' عالمی معاہدہ کریں۔
حیاتیاتی تنوع کا تحفظ
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) نے واضح کیا ہے کہ حیاتی تنوع کو ہونے والا نقصان پہلے ہی علاقائی اور عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں پر نمایاں طور سے اثرانداز ہو رہا ہے۔
چونکہ فطری ماحولی نظام موسم کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ماحول سے کاربن کو نکالنے اور مخصوص جگہوں پر ذخیرہ کرنے میں مدد دیتے ہیں، اس لیے دنیا بھر میں جنگلات کو ہونے والے نقصان، مرطوب اراضی کے خشک ہونے اور دیگر طرح کے ماحولیاتی انحطاط نے موسمیاتی تبدیلی کے رونما ہونے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ادارے کے مطابق جنگلات کے خاتمے اور جنگلاتی انحطاط میں کمی لانے اور ماحولی نظام کو بحال کرنے کی کوششیں گرین ہاؤس گیسوں کے سالانہ اخراج کو کم کر سکتی ہیں۔
یو این ای پی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اِنگر اینڈرسن نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ ''اگر ہم فطرت اور فطری ڈھانچے، جنگلات، مونگے، چمرنگ اور ساحلی جنگلات پر سرمایہ کاری کریں تو اس سے ہمیں اونچے درجے کے طوفانوں سے تحفظ مل سکتا ہے۔ جنگلات جانوروں کی انواع کو مسکن مہیا کرنے کے ساتھ کاربن کو ذخیرہ بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے یہ بیک وقت موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو محدود رکھنے اور ان سے مطابقت پیدا کرنے میں معاون ہیں۔''
مونگے کی چٹانوں کے تحفظ کا اقدام
اس کے ساتھ ساتھ، شدید موسمی حالات اور بڑھتی ہوئی حدت حیاتی تنوع پر منفی طور سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں یہ صورت حال خاص طور پر واضح دکھائی دیتی ہے جہاں انہیں تحفظ دینے کے ذرائع محدود ہوتے ہیں۔ یہ تشویشناک بات ہے کیونکہ حیاتی تنوع کے اعتبار سے 17 بڑے ممالک میں سے 15 کرہ ارض کے جنوبی حصے میں واقع ہیں۔
ماہرین حیاتیات سمندر میں ایک اور افسوسناک صورتحال کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جانداروں کی 7,000 سے زیادہ انواع کو خوراک اور پناہ مہیا کرنے والی مونگے کی چٹانیں عالمی حدت میں اضافے اور سمندروں میں تیزابیت بڑھنے کے نتیجے میں ختم ہو رہی ہیں۔
یو این ای پی کی خیرسگالی سفیر ایلی گولڈنگ نے ان جانداروں کو تحفظ دینے کے لیے کاپ 27 میں ایک نیا اقدام شروع کیا ہے۔
انہوں نے بدھ کو کانفرنس میں ایک گروہی مباحثے کے دوران بتایا کہ ''یہ ایک مکمل بصری خوبصورتی ہے۔ جب آپ ماسک پہن کر ان کے قریب سے گزرتے ہیں اور سمندری حیات کے اس قرنجم کو دیکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کے تمام رنگ آپ کی آنکھوں کے سامنے تیر رہے ہوں۔ اس سے مجھے یہ بات یاد آتی ہے کہ مونگے سمندری فرش کے بہت معمولی سے حصے کا احاطہ کرتے ہیں لیکن یہ تمام معلوم سمندری انواع کی ایک چوتھائی تعداد کو زندہ رہنے میں مدد دیتی ہیں۔''
گولڈنگ نے مباحثے کے شرکا کو بتایا کہ عالمی حدت میں 1.5 ڈگری کی حد تک اضافے کے باوجود 70 سے 90 فیصد مونگے ختم ہو جائیں گے۔ اگر حدت میں یہ اضافہ 2.0 ڈگری سیلسیئس تک ہو تو یہ تعداد 99 فیصد تک پہنچ سکتی ہے جو کہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہو گی۔
گولڈنگ گلوکارہ اور گیت نگار بھی ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ یہ بات 'باعث توہین' ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مہیا کیے جانے والی مالی وسائل کا 0.01 فیصد سے بھی کم مونگوں کی حفاظت کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ''میں عالمی برادری کے رہنماؤں سے کہتی ہوں کہ وہ یہ بات تسلیم کریں کہ مونگے ہمارا ایک بہت بڑا مجموعی اثاثہ ہیں اور ان کے لیے مالی وسائل کی فراہمی، ان کی بحالی اور تحفظ کے لیے سنجیدہ عزم اور بہتر سے بہتر اقدامات کریں۔''
جنگلات، ایمیزون اور وعدے
گزشتہ برس گلاسگو میں کاپ 26 کے موقع پر جنگلات کے تحفظ کے لیے اہم وعدے کیے گئے۔
یو این ای پی کی سربراہ اینڈرسن نے کہا کہ ''ان میں سے بعض وعدے حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔ تاہم مصر میں حالیہ موسمیاتی کانفرنس کو 'عملدرآمدی کانفرنس' قرار دیے جانے کی ایک وجہ یہ ہے ان وعدوں پر حقیقی عملی کارروائی ہونا باقی ہے۔''
گزشتہ ہفتے یورپی یونین نے بھی گیانا، منگولیا، جمہوریہ کانگو، یوگنڈا اور زیمبیا میں جنگلات کے رقبے میں ہونے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے تعاون کی غرض سے ایک نئے فریم ورک کا اعلان کیا۔
بدھ کی سہ پہر موسمیاتی کانفرنس میں برازیل کے نومنتخب صدر لوئز اِناسیو لولا ڈا سلوا کی آمد پر لوگوں کا جم غفیر دیکھنے کو ملا۔ اس موقع پر انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان کا ملک ایمیزون میں غیرقانونی طور پر جنگلات کاٹے جانے کے خلاف بھرپور جدوجہد کرے گا اور اعلان کیا کہ برازیل 2025 میں کاپ 30 کی میزبانی کا ارادہ رکھتا ہے۔
لولا ڈا سلوا نے اپنی نئی کابینہ میں ایک دیسی وزارت قائم کرنے کا اعلان بھی کیا۔
'عمل کا وقت یہی ہے'
کاپ 27 کے آغاز سے ہی اس میں نمایاں دکھائی دینے والے مقامی باشندوں نے آج خاص طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا کیونکہ یہ لوگ ہماری زمین کے حیاتی تنوع کے محافظ ہیں۔
برازیل سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان ماحولیاتی کارکن ایڈریانا ڈا سلوا مافیولیٹی نے یو این نیوز کو بتایا کہ ''میرا علاقہ ایک ہی سال میں دو مرتبہ طوفانوں سے متاثر ہوا اور ہمارا پورا شہر تباہ ہو گیا۔ ہم اس طرح مزید زندگی گزارنا نہیں چاہتے، ہمیں محفوظ جگہ چاہیے، ہمیں محفوظ زمین چاہیے۔''
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں امید تھی کہ عالمی رہنما مقامی لوگوں کا استحصال کرنے کے بجائے ان کی قیادت کی بات پر کان دھریں گے۔
ایڈریانا نے واضح کیا کہ ''مقامی لوگوں کا رہن سہن سب سے زیادہ پائیدار ہے۔ اسی لیے ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے اور اس جدوجہد میں انہیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہم کرہ ارض کے 80 فیصد حیاتی تنوع کا تحفظ کرتے ہیں۔''
انہوں نے واضح کیا کہ ان کے لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد میں پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔
مذاکرات کی تازہ ترین صورتحال
مذاکرات کے حوالے سے کاپ 27 کی مصری صدارت نے بدھ کو بتایا کہ بدقسمتی سے بہت سے وفود مذاکرات پر پیش رفت نہیں کر رہے۔
کاپ 27 کے صدر کے خصوصی نمائند واعل ابوالمغد نے صحافیوں کو بتایا کہ ''موجودہ حالات میں ہمیں تعاون اور گنجائش نکالنے کی اس سے زیادہ امید تھی جتنی ہم کئی طرح کے مذاکرات کی بابت حاصل ہونے والی اطلاعات کے ذریعے دیکھ رہے ہیں۔ میں اپنی رائے محفوظ رکھوں گا کیونکہ شاید بعض ممالک اور وفود آخری مرحلے پر مزید کھلے پن اور گنجائش کا مظاہرہ کریں گے۔''
انہوں نے کہا کہ جب فریقین ایجنڈے کی منظوری دے رہے تھے جس میں پہلی مرتبہ موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصان اور اس کے ازلے کو شامل کیا گیا تو اس حوالے سے ہمیں آخری لمحے میں کامیابی ملی تھی۔