کاپ 27: دوسرے ہفتے کا آغاز پانی، خواتین، اور نقصان و تباہی پر مذاکرات سے ہوا
شرم الشیخ میں جاری کاپ 27 میں ''خواتین اور پانی'' کے موضوع پر مخصوص دن میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے طریقوں کے اہم محرک کے طور پر خواتین کی طاقت اور پانی کی فراہمی پر موسمیاتی بحران کے نمایاں اثرات بات چیت کا خاص موضوع رہے۔
اس موقع پر یونیسف کی ایک مندوب عائشکا نجیب نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''ہمارے بغیر ہمارے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔'' اس دوران وہ کانگریس میں نوجوانوں کے لیے مخصوص پویلین میں مشترکہ طور پر بنائے جانے والے رنگا رنگ فن پاروں میں سے ایک پر کام کر رہی تھیں۔ مصوری کے یہ فن پارے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات میں خواتین کے کردار کی عکاسی کرتے ہیں۔
اس نوجوان موسمیاتی کارکن کی رائے میں خواتین اور لڑکیاں اپنے تمام تر تنوع میں صدیوں سے موسمیاتی تحریک کی قیادت کر رہی ہیں اس لیے انہیں اس کام میں پیچھے نہیں رکھا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ''خواتین اور لڑکیوں کو موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے عمل کی معاون مالک اور ایجنڈا طے کرنے والے کردار کی حیثیت ملنی چاہیے لیکن فی الوقت ایسا نہیں ہے اور مذاکراتی عمل میں صنفی تفاوت اب بھی نمایاں ہے۔''
درحقیقت موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے عمل میں خواتین اور لڑکیوں کو بہت بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ بڑے پیمانے پر معاشی نتائج کا سامنا کرتی ہیں، آفات کے دوران انہیں بڑے پیمانے پر نگہداشت اور گھریلو کام کاج کرنا پڑتا ہے جس کا انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملتا اور سب سے بڑھ کر وہ اس بحران سے جنم لینے والے ممکنہ تشدد کے سامنے انتہائی غیرمحفوظ ہیں۔
تاہم جیسا کہ اقوام متحدہ میں خواتین کے ادارے کا کہنا ہے، خواتین متاثرہ نہیں ہیں اور شہادتوں سے یہ سامنے آتا ہے کہ دنیا بھر میں قومی پارلیمان میں ان کی نمائندگی ممالک کو موسمیاتی حوالے سے مزید کڑی پالیسیاں اختیار کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
افریقہ میں خواتین کے موضوع پر ایک اجلاس میں اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد کا کہنا تھا کہ ''خواتین اور لڑکیاں موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ناگزیر، موثر اور طاقتور رہنما کی حیثیت رکھتی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود اکثر ان کے کردار کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور اس کا درست اندازہ نہیں لگایا جاتا۔ انہیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے موثر مطابقت پیدا کرنے کے لیے درکار تربیتی توسیعی خدمات تک محدود رسائی ملتی ہے۔''
ان کا کہنا تھا کہ ''اس مسئلے کا نہایت سادہ اور موثر حل یہ ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو بھی قائدانہ کردار دیا جائے۔''
'خواتین باخبر ہیں'
آئرلینڈ کی پہلی خاتون صدر، اقوام متحدہ کی سابق ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور دنیا کے بعض مشکل ترین مسائل پر قابو پانے کے لیے کام کرنے والے نمایاں رہنماؤں کے گروہ 'دی ایلڈرز' کی بانی رکن میری رابنسن نے بھی واضح کیا کہ ہے کہ کاپ 27 میں خواتین اور لڑکیوں کی قیادت کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔
انہوں ںے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''ہمیں عملی مسائل کا اندازہ ہے۔ ہم ان مسائل سے اچھی طرح باخبر ہیں اور ہمیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ یہ مسائل کس قدر حقیقی ہیں اور ان مسائل کی صںفی تقسیم پر کس قدر سختی سے دھیان دینے کی ضرورت ہے۔''
رابنسن نے واضح کیا کہ دیگر خواتین رہنماؤں کے ساتھ مل کر انہوں ںے ایک ایسی تحریک شروع کی ہے جس کا مقصد نسوانی سوچ کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات پر زور دینا ہے۔
خواتین کا مرکزی کردار
کینیا سے تعلق رکھنے والی لوسی ٹونگال غیرسرکاری تنظیم ایکشن ایڈ سے وابستہ ہیں اور موسمیاتی و صنفی امور کی ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ اگرچہ وہ اپنے ملک میں مقامی لوگوں کی موسمی حالات سے نمٹنے کی اہلیت پر ہمیشہ حیران ہوتی ہیں لیکن اب وہ مزید مشکلات برداشت نہیں کر سکتے۔
ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے واضح کیا کہ ''ماؤں کی ترجیح پانی ہے کیونکہ ان کے شوہروں نے نئی چراگاہوں کی تلاش میں گھر چھوڑ دیے ہیں۔ یہ خواتین میلوں فاصلہ طے کر کے پانی تلاش کرنے کے لیے اپنی بیٹیوں کو سکولوں سے اٹھا لیتی ہیں۔ نتیجتاً ان بچیوں کو شادی کے لیے جنسی قطع و برید کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خاندان کے پاس زیادہ افراد کے لیے خوراک پیدا کرنے کا انتظام نہیں ہوتا۔''
این جی او کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ کیسے موسمیاتی اثرات کے نتیجے میں بڑھتا ہوا نقصان خواتین اور لڑکیوں پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہا ہے جن کے باعث ان پر جنسی و گھریلو تشدد کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
پانی: اب یا کبھی نہیں
جیسا کہ ٹونگال نے سوموار کو کاپ 27 کے دوسرے اہم موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا، اس وقت خواتین کو پانی کی تلاش میں دوردراز جگہوں پر جانا پڑتا ہے۔
انسانی سرگرمی کے نتیجے میں آنے والا موسمیاتی بحران دنیا بھر میں پانی کی فراہمی کے نظام میں نمایاں تبدیلیاں لا رہا ہے اور قحط اور تیز رفتار تبخیر کے باعث پانی کمیاب ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ شدید بارشوں کے واقعات اور گلیشیئروں کے پگھلنے کی رفتار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں یہ اثرات خاص طور پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی شائع کردہ ایک نئی رپورٹ کے مطابق صرف 2021 میں ہی ایشیا میں 100 قدرتی آفات آئیں جن میں 80 فیصد سیلاب اور طوفان تھے۔
ادارے نے ایشیا کے مستقبل کی بابت بھی پریشان کن تصویر پیش کی ہے جہاں ہمالیہ اور تبت کے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں جنہیں ایک ارب سے زیادہ لوگوں کے لیے تازہ پانی کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
پانی ایک ایسا موضوع ہے جسے ہم توانائی، غذائی تحٖظ، صحت، معیشت اور بین الاقوامی تعاون سمیت ہر معاملے میں دیکھتے ہیں۔
ہینک اوونک
پانی کے معاملے پر ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے نمائندے ہینک اووِنک نے کہا ہے کہ ''جہاں تک پانی کا معاملہ ہے تو اس بارے میں 'اب یا کبھی نہیں' جیسی صورتحال درپیش ہے۔ پانی ایک ایسا موضوع ہے جسے ہم توانائی، غذائی تحٖظ، صحت، معیشت اور بین الاقوامی تعاون سمیت ہر معاملے میں دیکھتے ہیں۔ ہمیں اپنے طرزعمل، اپنے رویے، اپنے اقدامات، اپنی حکمرانی اور پانی کے حوالے سے منظم ہونےکے اپنے انداز کو تبدیل کرنا ہو گا۔ اوونِک کا ملک ہالینڈ مارچ 2023 میں ہونے والی اقوام متحدہ کی آبی کانفرنس میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔
اس مسئلےکے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کاپ 27 کی صدارت نے سوموار کو پانی کے حوالے سے مطابقت پذیری اور مضبوطی سے متعلق اقدام (اے ڈبلیو اے آر ای) کا آغاز کیا جس کے تحت افریقہ میں انتہائی غیرمحفوظ لوگوں اور ماحولی نظام کے لیے پانی کی فراہمی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے خلاف مطابقت پیدا کرنے کے لیے کہا جائے گا۔
یہ پروگرام پانی کے ضیاع میں کمی لانے، مطابقت پذیری کے لیے پالیسی سے متعلق طریقہ ہائے کار تجویز کرنے اور ان پر عملدرآمد اور تعاون کو فروغ دینے کا کام کرے گا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس سال کے آغاز میں بتایا تھا کہ دنیا کی تقریباً 40 فیصد آبادی پانی کی کمیابی سے متاثر ہو رہی ہے۔ 80 فیصد گندا پانی صاف کیے بغیر ہی ماحول میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور 90 فیصد سے زیادہ قدرتی آفات کا تعلق پانی سے ہوتا ہے۔