انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ڈیجیٹل دہشت گردی سے نمٹنے کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا پختہ عزم

سلامتی کونسل کی انسداد دہشت گردی کمیٹی کے ارکان ’دلی اعلامیہ‘ کی دستاویز کی کاپیوں کے ساتھ۔
CTED
سلامتی کونسل کی انسداد دہشت گردی کمیٹی کے ارکان ’دلی اعلامیہ‘ کی دستاویز کی کاپیوں کے ساتھ۔

ڈیجیٹل دہشت گردی سے نمٹنے کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا پختہ عزم

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی انسداد دہشت گردی کمیٹی کا انڈیا میں ہونے والا دو روزہ اجلاس ختم ہو گیا ہے۔ اس موقع پر ایک دستاویز کی منظوری دی گئی جس میں رکن ممالک نے عہد کیا کہ وہ دہشت گردی کی ڈیجیٹل صورتوں کی روک تھام اور ان کا مقابلہ کرنے کے اقدامات اٹھائیں گے۔

ڈیجیٹل دہشت گردی میں مقاصد کے حصول کے لیے ڈرون اور سوشل میڈیا کا استعمال اور دہشت گردوں کو آن لائن طریقوں سے مالی وسائل کی فراہمی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کا دہشت گردی کے لیے استعمال روکنے کے لیے 'دِلی اعلامیہ' نامی اس غیرپابند دستاویز کی منظوری رکن ممالک کے نمائندوں، اقوام متحدہ کے حکام، سول سوسائٹی کے اداروں، نجی شعبے اور محققین کے مابین گفت و شنید کے متعدد سلسلوں کے بعد ہفتے کو انڈیا کے دارالحکومت میں دی گئی۔

Tweet URL

اس اعلامیے کا مقصد ڈرون، سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم اور اجتماعی چندے کے غلط استعمال سے متعلق اہم نوعیت کے خدشات کا احاطہ کرنا اور ایسے رہنما اصول ترتیب دینا ہے جن سے اس بڑھتے ہوئے مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

انسداد دہشت گردی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ ڈیوڈ شاریا کا کہنا ہے کہ ''دِلی اعلامیہ مستقبل کے لائحہ عمل کی بنیاد ہے۔ اس میں انسانی حقوق، سرکاری و نجی شراکت، سول سوسائٹی کی شمولیت اور مستقبل میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اکٹھے کام کرنے کے طریقوں پر بات کی گئی ہے۔ اس میں سی ٹی ای ڈی (کمیٹی کے سیکرٹریٹ) کو رہنما اصولوں کا ایک مجموعہ تیار کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے جو تمام شراکت داروں کی گہری سوچ بچار کا نتیجہ ہو گا۔''

انسانی حقوق کی بنیادی اہمیت

اس دستاویز میں اور اجلاس کے دوران ہونے والی بات چیت میں انسداد دہشت گردی کے اقدامات کرتے وقت انسانی حقوق کا احترام یقینی بنانے پر خاص زور دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے واضح کیا ہے کہ ''ڈیجیٹل کُرے میں ہر انسانی حق کے تحفظ کا عہد کرتے ہوئے ان کمزوریوں کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں جو مطلوبہ نتائج کے حصول میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔''

ایک ویڈیو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق موثر کثیرفریقی کوششوں اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ایسے اقدامات کیے جانا چاہئیں جن کی بنیاد اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے میں بیان کردہ اقدار اور ذمہ داریوں پر ہو۔

اس اجلاس میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی نمائندگی سکاٹ کیمبل نے کی جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے متعلق ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ انہوں ںے سیکرٹری جنرل کی بات کو دہراتے ہوئے واضح کیا کہ ''انسداد دہشت گردی کے اقدامات کرتے ہوئے حقوق کا احترام اپنے معاشرے کے تحفظ کے لیے پائیدار اور موثر کوششیں یقینی بنانے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔''

انہوں ںے کہا کہ ''اگر ایسے طریقہ ہائے کار سے کام لیا جائے جو ان اہم حدود سے تجاوز کرتے ہوں تو اس طرح نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ انسداد دہشت گردی کی کوششیں بھی اعتماد، نیٹ ورکس اور معاشروں کو ہونے والے نقصان سے کمزور پڑ جاتی ہیں جو کہ دہشت گردی کی کامیابی سے روک تھام اور اس کے خلاف اقدامات کے لیے لازمی اہمیت رکھتے ہیں۔''

کیمبل کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق میں اس مسئلے کے بہت سے حل موجود ہیں اور رکن ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی سلامتی کا تحفظ کریں اور یقینی بنائیں کہ ان کے طرز عمل سے کسی فرد کے حقوق پامال نہ ہوں۔

ضابطے اور سنسرشپ

انہوں نے اس بات پر زور بھی دیا کہ کمپنیوں اور ریاستوں کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر مواد کی تطہیر اور اس پر پابندی عائد کرتے وقت محتاط رہیں کیونکہ اس سے ''اقلیتیں اور صحافی غیرمتناسب انداز میں متاثر ہو سکتے ہیں۔''

کیمبل نے تجویز پیش کی کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے عائد کی جانے والی پابندیوں کی بنیاد قطعی اور بالاحتیاط بنائے گئے قوانین پر ہونی چاہیے اور اس میں جائز اظہار کو سنسر کرنے کی ترغیب نہیں دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے شفاف طریقہ ہائے کار، حقیقتاً آزاد اور غیرجانبدار نگران ادارے ہونے چاہئیں اور سول سوسائٹی اور ماہرین کو ان ضوابط کی تیاری، انہیں بہتر بنانے اور ان پر عملدرآمد کے عمل میں شامل کیا جانا چاہیے۔

اجلاس کے اختتامی حصے کے دوران کمیٹی کی چیئرپرسن اور اقوام متحدہ میں انڈیا کی مستقل نمائندہ روچیرا کمبوج نے کہا کہ مںظور کی جانے والی دستاویز میں مسائل کے بیان کے علاوہ ''نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کے دہشت گردانہ مقاصد کے لیے استعمال اور اس سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے مفید، عملی اور تدبیراتی امکانات تجویز کیے گئے ہیں۔''

انہوں نے مزید کہا کہ وہ ڈیجیٹل دہشت گردی سے لاحق نئے مسائل کا سامنا کرنے والے ممالک کو اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے درکار تبدیلیاں ممکن بنانے کے لیے عالمی پالیسی ساز برادری کو مستعد، دوررس اور تعاون پر مبنی طرزعمل اختیار کرنا ہو گا۔

دہلی اعلامیے کے اہم نکات:

  • دہلی اعلامیے میں رکن مماک نے اتفاق کیا ہے کہ رہنما اصولوں اور عملدرآمدی اقدامات کی بنیاد بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق پر ہونی چاہیے۔
  • کمیٹی کے ارکان اطلاعاتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی، جیسا کہ رقم کی ادائیگی سے متعلق ٹیکنالوجی اور مالی وسائل جمع کرنے کے طریقوں اور انسانوں کے بغیر چلائے جانے والے فضائی نظام (یو اے ایس یا ڈرون) کا دہشت گردوں کے ہاتھوں غلط استعمال روکنے کے لیے تجاویز تیار کریں گے۔
  • کمیٹی رکن ممالک کو انسانی حقوق اور بنیادی آزادیاں قائم رکھتے ہوئے ٹیکنالوجی کا دہشت گردانہ مقاصد کے لیے استعمال روکنے سے متعلق سلامتی کونسل کی تمام متعلقہ قراردادوں پر عملدرآمد میں مدد دے گی۔
  • رکن ممالک کو ڈیجیٹل دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں مدد دینے کے لیے غیرپابند رہنما اصولوں کا نیا مجموعہ جاری کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ خطرات سے نمٹنے کے لیے اسی طرح کی ٹیکنالوجی کے ذریعے پیش کردہ مواقع سے متعلق بہتر طریقہ ہائے کار کا مجموعہ بھی شامل ہو گا۔
  • متعلقہ دفاتر سول سوسائٹی بشمول خواتین اور خواتین کی تنظیموں، نجی شعبے کے متعلقہ اداروں اور دیگر فریقین کے مابین ربط و تعاون کو بہتر بنانے اور شراکتیں قائم کرنے کا عزم کریں گے۔