انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خوراک کا عالمی دن: غذائی و موسمیاتی بحران میں آئندہ برس بھی بدترین بھوک پھیلنے کا خدشہ

یمن میں غذائی قلت کا شکار ایک بچہ علاج کی غرض سے تیارکردہ خوراک لیتے ہوئے۔
© UNICEF/Anwar Al-Haj
یمن میں غذائی قلت کا شکار ایک بچہ علاج کی غرض سے تیارکردہ خوراک لیتے ہوئے۔

خوراک کا عالمی دن: غذائی و موسمیاتی بحران میں آئندہ برس بھی بدترین بھوک پھیلنے کا خدشہ

انسانی امداد

ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کا بحران مزید لوگوں کو شدید غذائی عدم تحفظ کے بدترین حالات کا شکار بنا رہا ہے اور ایسے میں خدشہ ہے کہ آئندہ برس دنیا کو پہلے سے کہیں زیادہ بھوک کا سامنا ہو سکتا ہے۔

خوراک کے عالمی دن سے پہلے بڑھتی ہوئی بھوک کی بنیادی وجوہات پر قابو پانے کے لیے فوری اقدام کی ضرورت کا مطالبہ کرتے ہوئے ادارے کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران شدید موسمیاتی واقعات، جنگ اور معاشی عدم استحکام سے پیدا ہونے والے ''باہم مسابقتی بحرانوں کے اتصال'' سے آیا ہے۔

2022 کے آغاز سے اب تک دنیا بھر میں بھوک کا شکار لوگوں کی تعداد 282 ملین سے بڑھ کر 345 ملین تک پہنچ گئی ہے اور سال کے وسط تک ڈبلیو ایف پی کو 111 ملین سے کچھ ہی زیادہ ضرورت مند لوگوں تک رسائی ہو سکی ہے جبکہ اسے سال کے آخر تک 153 ملین ضرورت مند آبادی کی غذائی مدد کرنا ہے۔

ڈبلیو ایف پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے کہا ہے کہ ''ہم خوراک کے ایک ایسے عالمگیر بحران کا سامنا کر رہے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور اس کی تمام علامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی اس بحران کا بدترین مرحلہ آنا باقی ہے۔''

ان کا کہنا ہے کہ ''گزشتہ تین سال میں بھوک کا شکار لوگوں کی تعداد نے تواتر سے نئی بلندیوں کو چھوا ہے۔ میں واضح کر دوں کہ اگر اس بحران کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر اور مربوط کوشش نہ ہوئی تو حالات مزید بدتر ہو جائیں گے۔ ہم بے مثال بھوک کا ایک اور سال دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔''

پاکستان کے ایک سیلاب زدہ علاقے میں ایک ماں غذائی قلت کے شکار اپنے بچے کو کھلا رہی ہے۔
© UNICEF/Shehzad Noorani
پاکستان کے ایک سیلاب زدہ علاقے میں ایک ماں غذائی قلت کے شکار اپنے بچے کو کھلا رہی ہے۔

قحط کی روک تھام

ہنگامی غذائی امداد مہیا کرنے والے ادارے نے واضح کیا ہے کہ وہ فی الوقت پانچ ممالک میں ''قحط کو روکے ہوئے'' ہے جن میں افغانستان، ایتھوپیا، صومالیہ، جنوبی سوڈان اور یمن شامل ہیں۔

جنگوں کے باعث مواصلات میں رکاوٹیں آنے، امدادی رسائی محدود ہو جانے اور لوگوں کے بے گھر ہونے سے انتہائی غیرمحفوظ اور کمزور آبادیاں تباہ کن بھوک کا شکار ہو رہی ہیں۔

مثال کے طور پر یوکرین میں جاری جنگ کے باعث عالمگیر تجارت میں خلل آیا ہے، نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے اور غذائی پیداواری عمل کا دورانیہ بڑھ گیا ہے جبکہ کسانوں کو ضرورت کے مطابق خوراک پیدا کرنے کے لیے درکار کھادوں اور دیگر زرعی اشیا کی کمی کا سامنا ہے۔

ڈبلیو ایف پی نے خبردار کیا ہے کہ ''فصلوں کی آئندہ کٹائی پر اس صورتحال کے اثرات دنیا بھر میں ظاہر ہوں گے۔''

سندھ کے شہر عمر کوٹ میں سڑکوں پر سیلابی پانی بہہ رہا ہے۔
© UNICEF/Asad Zaidi
سندھ کے شہر عمر کوٹ میں سڑکوں پر سیلابی پانی بہہ رہا ہے۔

معیشت اور موسم

اسی دوران شدید موسمی حالات کے نتیجے میں تباہ کن آفات کی رفتار اور شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے متاثرین کو مختلف قدرتی آفات کے درمیان خود کو بحال کرنے کا موقع نہیں ملتا۔

شاخِ افریقہ میں بے مثال قحط مزید لوگوں کو تشویشناک حد تک شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار کر رہا ہے، اب صومالیہ میں بھی قحط آنے کا امکان ہے جبکہ بہت سے ممالک خاص طور پر پاکستان میں سیلاب نے گھروں اور کھیتوں کو تباہ کر دیا ہے۔

ڈبلیو ایف پی نے وضاحت کی ہے کہ حکومتوں کی ایسے حالات سے نمٹنے کی صلاحیت ان کے اپنے معاشی مسائل کے باعث محدود ہے جن میں کرنسی کی قدر میں کمی، افراط زر اور قرض کے مسائل نمایاں ہیں جبکہ عالمگیر معاشی گراوٹ کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔

ادارے نے خبردار کیا ہے کہ ''اس صورتحال میں بڑی تعداد میں لوگ خوراک کے حصول کے قابل نہیں رہیں گے اور انہیں اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے انسانی امداد کی ضرورت پڑے گی۔''

جنوبی سوڈان میں ایک غزائی مرکز میں ایک ماں اپنے بچے کو کھانا کھلاتے ہوئے
© WFP/Eulalia Berlanga
جنوبی سوڈان میں ایک غزائی مرکز میں ایک ماں اپنے بچے کو کھانا کھلاتے ہوئے

امداد میں توسیع

اس سال میں اب تک ڈبلیو ایف پی نے سری لنکا میں معاشی بحران پر قابو پانے میں مدد دینے کے لیے اپنی امداد کو چھ گنا بڑھا دیا ہے، پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدام شروع کیا ہے اور صومالیہ میں قحط کے پیش نظر اپنی امدادی سرگرمیوں کو پہلے سے کہیں زیادہ وسعت دے دی ہے۔

افغانستان میں ہر پانچ میں سے ایک افغان شہری ڈبلیو ایف پی کی امداد وصول کر رہا ہے۔

ادارے نے یوکرین میں بھی ایک ہنگامی امدادی کارروائی شروع کی ہے اور وہاں جنگ میں جان بچا کر نکلنے والے خاندانوں کی مدد کے لیے مولڈووا میں ایک نیا دفتر کھولا ہے۔

ڈبلیو ایف پی کو 2022 میں 153 ملین لوگوں تک امداد پہنچانے کےلیے 24 بلین امریکی ڈالر درکار ہیں۔ تاہم کووڈ۔19 وبا میں عالمی معیشت کے بری طرح متاثر ہونے کی وجہ سے ضروریات اور وسائل کے درمیان فرق پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔

ادارے نے خبردار کیا ہے کہ جب تک ضروری وسائل مہیا نہیں ہو جاتے اس وقت تک ہم جانوں کے ضیاع اور کڑی محنت سے حاصل ہونے والے ترقیاتی فوائد کو کھونے کی صورت میں اس بحران کی قیمت چکاتے رہیں گے۔