انسانی کہانیاں عالمی تناظر
آئی او ایم چیف ایمی پوپ یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے۔

انٹرویو: مہاجرت کو ترقیاتی پالیسی کا اہم جزو ہونا چاہیے، ایمی پوپ

UN News/Matt Wells
آئی او ایم چیف ایمی پوپ یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے۔

انٹرویو: مہاجرت کو ترقیاتی پالیسی کا اہم جزو ہونا چاہیے، ایمی پوپ

معاشی ترقی

بین الاقوامی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پوپ نے کہا ہے کہ مہاجرت کو محض امدادی عمل کے بجائے عالمگیر ترقیاتی پالیسی کے ایک اہم حصے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

سپین کے شہر سیویل میں مالیات برائے ترقی کے موضوع پر جاری اقوام متحدہ کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ بے قاعدہ مہاجرت کا خاتمہ ترقیاتی اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مہاجرت ترقی کو فروغ دے سکتی ہے اور اس میں بالخصوص بیرون ملک سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر اور حالات میں بہتری کے بعد مہاجرین کی واپسی کا اہم کردار ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'آئی او ایم' کا مقصد حکومتوں کو یہ سوچنے، بات کرنے اور اس بارے میں عملی اقدامات اٹھانے پر آمادہ کرنا ہے کہ مہاجرت ترقی کا ذریعہ ہے۔

مہاجرت کے ذریعے ترقیاتی ایجنڈے کی تشکیل اور حکومتوں سے 'آئی او ایم' کی توقعات پر مرتکز اس بات چیت کو وضاحت اور اختصار کے مقصد سے مدون کر کے پیش کیا گیا ہے۔

یو این نیوز: 'آئی او ایم' کا سیویل کانفرنس میں کیا کردار ہے جو کہ بنیادی طور پر پائیدار ترقی کے لیے مالی وسائل کے انتظام پر گفت و شنید اور اس حوالے سے ضروری لائحہ عمل کی تیاری کے لیے منعقد کی گئی ہے؟

ایمی پوپ: اس جیسی کانفرنس ہمارے لیے دو طرح سے اہم ہے۔ پہلی بات یہ کہ دنیا میں ترقی سے متعلقہ مسائل کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ یقیناً بعض لوگ جنگوں، تنازعات یا مظالم سے تنگ آ کر بھی اپنا گھر اور ملک چھوڑتے ہیں لیکن موسمیاتی اثرات، غربت اور مواقع کی کمی اس وقت بڑی تعداد میں مہاجرت کے بنیادی اسباب ہیں۔ اسی لیے بےقاعدہ مہاجرت کا خاتمہ مہاجرین کے آبائی ممالک میں ترقی کی بدولت ہی ممکن ہے۔

دوسری بات یہ کہ مہاجرت سے ناصرف مہاجرین کو آمدنی اور مواقع تک رسائی ملتی ہے بلکہ اس سے ان کے آبائی ممالک میں بھی ترقی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ یہ بات عالمی بینک کی تحقیق سے ثابت ہے۔

ایمی پوپ غزہ میں فلسطینیوں سے ملاقات کر رہی ہیں۔
UN News
ایمی پوپ غزہ میں فلسطینیوں سے ملاقات کر رہی ہیں۔

یو این نیوز: مہاجرین کو اس کانفرنس سے کس شے کی ضرورت ہے۔ اس میں ایسا کون سا اقدام ہو سکتا ہے جس سے ان کے میزبان ممالک پر بوجھ بڑھائے بغیر ایسے لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائی جا سکے؟

ایمی پوپ: میری رائے میں چند معاملات ایسے ہیں جہاں حقیقی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ پہلا یہ کہ، ہم جانتے ہیں بیرون ملک سے ترسیلات زر کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ترقی کو فروغ دیتی ہیں۔ اس رقم کا سالانہ حجم 770 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر ایک سے دوسرے ملک میں رقم بھیجنے پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کر دیا جائے تو کہیں بڑی رقم مہاجرین کے خاندانوں اور علاقوں میں پہنچے گی اور مقامی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اسے وسیع تر ترقیاتی مقاصد کے لیے بھی کام میں لایا جا سکتا ہے۔

دوسرا یہ کہ، جب لوگ بیرون ملک کام کرنے کے بعد واپس آتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ نئی صلاحیتیں، زبانیں اور علم لاتے ہیں جسے ان کے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو منتقل کر کے بہت سے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

یو این نیوز: شام اس کی اچھی مثال معلوم ہوتا ہے۔

ایمی پوپ: جی ہاں۔ شام میں خانہ جنگی کے دوران بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ملک چھوڑ گئے تھے۔ اب ملکی تعمیرنو کے لیے ان کی واپسی بہت اہم ہو گی۔ بالخصوص تعمیرات، صنعت کاری، ادویہ سازی اور تعلیم کے میدان میں ان کی صلاحیتیں ملک اور لوگوں کو بہت سا فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ لہٰذا، کامیابی کے لیے ترقی اور بحالی کو مہاجرین کی واپسی سے جوڑنا بہت ضروری ہے۔

یو این نیوز: آپ نے ترسیلات زر کے فوائد کی بابت بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے ممالک میں رقومات بھیجنے والے لوگوں کو مدد دینے کی ضرورت ہے۔ آپ ایسے ممالک کو  اس پر کیسے قائل کریں گی جن کا کہنا ہے کہ وہ اس ضمن میں اٹھنے والے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے؟

ایمی پوپ: ہم حکومتوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایسی پالیسیاں بنائیں جن سے محفوظ اور قانونی مہاجرت ممکن بنائی جا سکے۔ بے قاعدہ مہاجرت استحصال اور کم ادائیگی کا باعث بنتی ہے جس سے ملکی کارکنوں کی اجرتوں میں بھی کمی آتی ہے۔ بالآخر اس کا نتیجہ ایسے اخراجات کی صورت میں نکلتا ہے جنہیں اس وقت کوئی ملک برداشت نہیں کر سکتا۔ اسی لیے سوال یہ نہیں کہ کون سا ملک ان اخراجات کا متحمل ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہونا چاہیے کہ ممالک اپنے لوگوں کے لیے بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔

آئی او ایم کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پوپ ہیٹی کے دورہ کے لیے دارالحکومت پورٹ او پرنس اتر رہی ہیں (فائل فوٹو)۔
© IOM/Antoine Lemonnier
آئی او ایم کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پوپ ہیٹی کے دورہ کے لیے دارالحکومت پورٹ او پرنس اتر رہی ہیں (فائل فوٹو)۔

یو این نیوز: 'آئی او ایم' سیویل کانفرنس سے کون سے ٹھوس اقدامات کی امید رکھتا ہے؟

ایمی پوپ: سب سے پہلی اور اہم بات یہ کہ ہم چاہتے ہیں مہاجرت کو بھی ترقیاتی موضوع پر بات چیت کا حصہ بنایا جائے۔ اگر کوئی شخص کشتی پر سوار ہو کر بحیرہ روم کو عبور کرتا ہے جس نے انسانی سمگلروں کو بھاری ادائیگی کرنا ہے اور اسے یہ بھی یقین نہیں کہ آیا وہ اس سفر میں زندہ بچے گا یا نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم پوری طرح ناکام ہیں۔

ہمارا مقصد یہ ہے کہ حکومتیں ابتدا ہی سے مہاجرت کو ترقی کا ذریعہ سمجھیں، اس بارے میں بات کریں اور اس تصور کو لے کر عملی اقدامات اٹھائیں۔ ترسیلات زر پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی لانا اس حوالے سے ایک قدم ہے۔ 'ڈائیسپورا بانڈ' تارکین وطن کو ترقیاتی مالیات میں شامل کرنے کا ایک اور طریقہ ہیں۔ علاوہ ازیں، ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا پیشگی اندازہ لگانا ہو گا تاکہ لوگ ہجرت پر مجبور نہ ہوں۔

یو این نیوز: آخری بات یہ کہ امریکہ میں مہاجرت کا مسئلہ نہایت گمبھیر اور سیاسی ہو چکا ہے۔ اگر امریکہ بھی اس کانفرنس میں شریک ہوتا تو اس کے لیے آپ کیا پیغام دیتیں۔

ایمی پوپ: میں یہ کہتی کہ سرحدوں کو بند کرنے پر وسائل خرچ کرنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی ترقی پر سرمایہ کاری کی جائے جو مہاجرت پر مجبور ہوتے ہیں۔

جب کوئی شخص بیرون ملک جانے کے لیے کسی سمگلر کو ادائیگی کرتا ہے اور کسی نہ کسی طرح سرحد پار کر کے امریکہ میں آتا ہے تو یہ عمل خود اس کے لیے اور اس کے اپنے ملک میں اس کے قریبی لوگوں کے لیے نہایت مہنگا، دقت طلب اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کہیں بہتر یہ ہے کہ ان علاقوں میں مسائل کے حل پر توجہ دی جائے جہاں سے یہ مہاجرین آتے ہیں یا جہاں وہ سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔