انٹرویو: انسانی حقوق پر عملدرآمد میں سیاسی عزم کا فقدان، وولکر ترک
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق بحران کا شکار نہیں بلکہ ان پر عملدرآمد اور تمام لوگوں کے حقوق کا احترام یقینی بنانے کے لیے مضبوط سیاسی قیادت کا فقدان ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، سول سوسائٹی کے لیے کم ہوتی گنجائش اور آمرانہ رحجانات میں اضافے سے شہریوں کے ناقابل انتقال حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ دنیا کو حقوق پر قدغن لگانے کے بجائے کھلے پن اور احتساب سے کام لیتے ہوئے انہیں فروغ دینا اور ان کا تحفظ کرنا ہو گا اور اس مقصد کے لیے سیاسی رہنماؤں پر سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
وولکر ترک نے یہ بات یو این نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق، خصوصی اطلاع کاروں اور دفتر برائے انسانی حقوق کا دنیا بھر میں حقوق کی پامالیوں کے ذمہ داروں کا محاسبہ کرنے میں اہم کردار ہے۔
انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کا کردار
انہوں نے مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر بات کرتے ہوئے پائیدار امن کو بحال کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ اور لبنان میں جنگ بندی اور حماس کی قید میں یرغمالیوں کی غیرمشروط رہائی ضروری ہے۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی وجوہات کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ دنیا کو بہت سی جنگوں، تشدد اور آمریتوں کا سامنا ہے۔ سول سوسائٹی پر جبر کیا جا رہا ہے جو کہ موجودہ دنیا میں بہت عجیب بات ہے۔
دنیا میں انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے موجودہ نظام کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہائی کمشنر نے کہا کہ اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کے اداروں اور حقوق سے متعلق معاہدوں سے موثر کام لینا ضروری ہے۔ یہ تمام طریق کار خاص طور پر تنازعات کے دوران اور ان سے ہٹ کر انسانی حقوق کی صورتحال ان کی پامالی کے ذمہ داروں کو سامنے لاتے ہیں۔ حقوق سے متعلق اداروں کا یہ کام بہت اہم ہے کیونکہ اگر ایسے عناصر کو سامنے نہ لایا جائے تو پھر مسائل بڑھیں گے۔
مشرق وسطیٰ میں تشویشناک رحجان
دنیا بھر میں جاری بحرانوں اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے بین الاقوامی قانون پر ممکنہ اثرات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وولکر ترک نے کہا کہ حالیہ تنازعات میں سبھی انتہا پسندی اور جنگ کی نامعقول سوچ کی طرف مائل ہیں۔ یہ بات کوئی نہیں کرتا کہ امن کیسے قائم کیا جائے۔ دنیا کو ایک کے بعد دوسری جنگ اور کشیدگی کا سامنا ہے جیسے تشدد ہی مسئلے کا حل ہو جبکہ حقیقت اس سے برعکس ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی ہونی چاہیے اور یرغمالیوں کو غیرمشروط طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔ تشدد کا موجودہ سلسلہ بند کر کے امن بات چیت شروع کی جانی چاہیے جس سے بالآخر فلسطینی مسئلے کا دو ریاستی حل نکل سکے اور فریقین پرامن طور سے ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ تنازعات میں دنیا کے سامنے بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق، نفاذ قانون اور انسانی قانون کی جس طرح پامالی ہو رہی ہے وہ نہایت تشویش کا باعث ہے۔ بعض لوگ یہ کہہ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ اگر دنیا کے کسی ایک حصے میں ایسا ہو سکتا ہے تو کہیں اور بھی ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ممالک کے باہمی تعلقات کے بارے میں بنیادی نوعیت کے رہنما اصولوں کو دیکھا جائے تو بین الاقوامی قانون کو پامال کیا جانا بہت تشویش کی بات ہے جبکہ جنگوں اور ریاستی اداروں کے ذریعے باہمی رابطوں میں ممالک کو انہی اصولوں پر چلنا چاہیے۔
حقائق کی تلاش کا طریق کار
یوکرین کی صورتحال اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں درست معلومات کے حصول میں حائل مشکلات سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دفتر برائے انسانی حقوق اور یوکرین کے بارے میں تحقیقاتی کمیشن اس معاملے میں بہت دیکھ بھال اور احتیاط سےکام لے رہا ہے۔
انسانی نقصان یا شہری تنصیبات کی تباہی کا جائزہ لیتے ہوئے ہر واقعے اور ہر تفصیل کا بالاحتیاط تجزیہ کیا جاتا ہے اور انتہائی درجے کی مصدقہ معلومات ہی سامنے لائی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے بعض اوقات حقوق کی پامالیوں سے متعلق واقعات کی تعداد حقیقی تعداد سے کم دکھائی دیتی ہے اور حقوق کی پامالیوں سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ سامنے آنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ وہاں انتہائی غیرانسانی ماحول میں انفرادی واقعات نظرانداز ہونے نہ پائیں۔
وولکر ترک نے کہا کہ انسانی حقوق کا تعلق حقائق اور انہیں سامنے لانے سے ہے۔ یہ قانون کے مساوی نفاذ کا معاملہ ہے کیونکہ یہ بین الاقوامی نگرانی کا قانون ہے۔ لہٰذا اس کے ذریعے ہم حقائق کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس میں ہمدردی کا عنصر بھی شامل ہے۔ انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے لوگوں کی تکالیف اور مصائب کو بھی سامنے لانا ہوتا ہے تاکہ دوسروں کو اندازہ ہو کہ جنگ ایک ہولناک چیز ہے۔ یہ موت اور تباہی لاتی ہے اور اسے ہونے ہی نہیں دینا چاہیے۔ اس سے بچنا اور اسے روکنے کا طریقہ ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔
ہیٹی کی صورتحال
ہائی کمشنر نے ہیٹی کی صورتحال پر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ رواں سال ملک میں 3,900 شہری ہلاک اور سیکڑوں اغوا ہو چکے ہیں۔ ملکی پولیس کو امن و امان بحال کرنے میں کثیرملکی سکیورٹی سپورٹ مشن کی جانب سے فراہم کی جانے والی مدد بہت اہم ہے۔ اس کے ساتھ ملک میں ہتھیاروں کی آمد کو روکنا بھی ضروری ہے۔
وولکر ترک کا کہنا تھا کہ نظم و نسق بہتر بنانے کے لیے مسلح جتھے چلانے والوں پر پابندیاں عائد کرنا ہوں گی۔ اس مقصد کے لیے جامع اور ہنگامی طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کو بھی اس کا حصہ ہونا چاہیے تاکہ پولیس اور بین الاقوامی فورس جو بھی قدم اٹھائے اس میں حقوق کی پامالی کا خدشہ نہ ہو۔