
دنیا میں ہر ملک انسانی سمگلنگ سے متاثر ہے جو متاثرین کا آبائی ملک، عبوری علاقہ یا وہ جگہ ہو سکتی ہے جہاں انہیں لے جایا جاتا ہے۔ عورتوں اور لڑکیوں کی سمگلنگ کرنے والوں کی اکثریت ان کے جنسی استحصال کے لیے یہ جرم کرتی ہے۔
شمالی رومانیہ میں بس پر سیگیٹو مارمیٹائی سرحدی راستہ عبور کرنے والی 11 سالہ انستاسیا جیسی بے گھر لڑکیوں کو انسانی سمگلروں سے خاص طور پر خطرہ ہوتا ہے۔
اقوام متحد میں بچوں کے فنڈ (یونیسف) نے بتایا ہے کہ جنگ اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ ادارے کے مطابق بے گھر عورتیں اور لڑکیاں صنفی بنیاد پر تشدد کے حوالے سے خاص طور پر خطرے کی زد میں ہوتی ہیں۔

گیبون میں مشکلات اور خطرات کا شکار بچوں کے لیے قائم سرکاری مرکز میں یونیسف انسانی سمگلنگ اور غیرقانونی مہاجرت کے کم عمر ترین متاثرین کی مدد کرتا ہے۔
جب جنگ کے باعث بچے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں تو انہیں زخمی اور ہلاک ہونے اور سمگل کیے جانے یا بچہ مزدوری پر مجبور کیے جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ جبری مشقت کے لیے سمگل کیے جانے والے لوگوں میں 30 فیصد تعداد عورتوں کی ہے۔

بنگلہ دیش میں کاکس بازار مہاجر کیمپ میں یونیسف کی 18 سالہ رپورٹر رِفا نوعمری کی شادی سے انسانی سمگلنگ تک لڑکیوں کو درپیش بہت سے خطرات کے حوالے سے آگاہی بیدار کرنے کے لیے کمپیوٹر سے کام لیتی ہیں۔
اب انسانی سمگلر سائبر سپیس میں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جو متاثرین کو بھرتی کرنے، ان کے استحصال اور انہیں کنٹرول کرنے، ان کے ممکنہ گاہکوں سے رابطہ کرنے اور اپنی مجرمانہ کارروائیوں کو چھپانے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح انٹرنیٹ کے ذریعے وہ اپنا کام تیز رفتاری سے، کم خرچ میں اور خفیہ رہ کر انجام دیتے ہیں۔

ہونڈوراس کے علاقے یورو میں سکول سے گھر واپس آتے ہوئے 13 سالہ لڑکی کو گھسیٹ کر ایک وین میں پھینکا گیا اور زیادتی کا نشانہ بنا کر ایک گھنٹے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔
یونیسف کے مطابق سماجی تشدد کسی بچے کی تعلیم جاری رکھنے کی اہلیت پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ ایسا خاص طور پر شہروں کے نواحی علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں جرائم پیشہ جتھے بلاخوف و خطر اپنی کارروائیاں کرتے ہیں جس کا نتیجہ متاثرین کی ہلاکتوں، ان کی نقل و حرکت محدو کیے جانے اور موت کے خطرات کی صورت میں نکلتا ہے۔

نائیجر میں انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھنے کے خطرے سے دوچار بے آسرا بچوں کے بارے میں یونیسیف کوائف اکٹھے کرتا ہے، انہیں ان کے خاندانوں سے دوبارہ ملانے کی کوشش کرتا ہے اور اس دروان ان کے لیے عارضی محفوظ پناہ گاہ کا انتطام کرتا ہے، اور ساتھ ہی ان کی نفسیاتی صحت کی بحالی کا تردد بھی کیا جاتا ہے۔
ہزاروں مہاجر بچوں جنہیں پُرخطر مسافتوں جہاں انہیں فروخت کیے جانے، جنسی استحصال، اور تعصب جیسے خطرات کا سامنا تھا سے بازیاب کرا کے ان کے علاقوں میں واپس پہنچایا گیا ہے۔ سرحدوں کی بندش اور کووڈ۔19 وباء کے دوران ان بچوں کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہوا۔