انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ جنگ: امریکہ میں مظاہرین کے خلاف ’طاقت کے استعمال‘ پر تشویش

مظاہرین نیو یارک میں کولمبیا یونیورسٹی کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں۔
UN Photo/Evan Schneider
مظاہرین نیو یارک میں کولمبیا یونیورسٹی کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں۔

غزہ جنگ: امریکہ میں مظاہرین کے خلاف ’طاقت کے استعمال‘ پر تشویش

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے غزہ کی جنگ کے خلاف امریکہ کی یونیورسٹیوں میں ہونے والے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ اظہار کی آزادی اور پرامن اجتماع کا حق کسی معاشرے کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جب مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور اسرائیل کے تنازع جیسے بڑے مسائل پر سخت اختلاف پایا جائے تو ان آزادیوں اور حقوق کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

Tweet URL

مظاہرین امریکہ کی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ فلسطینی علاقوں پر قبضے اور غزہ میں جنگ کے معاملے پر اسرائیل کی حمایت سے دستبردار ہو جائے۔ یہ مظاہرے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہوئے تھے جو اب ملک بھر میں پھیل چکے ہیں۔ 

ان مظاہروں کے معاملے میں ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے حکام نے مختلف طریقہ کار اپنائے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی میں پولیس کو بزور طاقت مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کہا گیا، بعض اداروں میں طلبہ سے مذاکرات کیے گئے اور بعض میں طلبہ کو احتجاجی کیمپ برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔

مظاہرین سے مذاکرات ناکام

کولمبیا یونیورسٹی کی صدر نے سوموار کو اعلان کیا تھا کہ مظاہرین کے ساتھ مزاکرات ناکام ہو گئے ہیں اور ادارہ اسرائیل کی حمایت سے دستبرداری کے مطالبات کو تسلیم نہیں کرے گا۔ 

یونیورسٹی میں موجود مظاہرین نے سوموار کو انتطامیہ کی جانب سےکیمپس چھوڑنے یا معطلی کے انتباہ کو نظرانداز کر دیا ہے۔ منگل کی صبح طلبہ نے کیمپس کے تاریخی ہیملٹن ہال پر قبضہ کر کے خود کو اس میں بند کر لیا۔

قبل ازیں 1968 میں شہری حقوق کے لیے چلائی جانے والی تحریک کے کارکنوں اور ویت نام جنگ کے مخالفین نے بھی اسی انداز میں ہیملٹن ہال پر قبضہ کیا تھا۔

احتجاج کا حق

وولکر ترک نے کہا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران امریکہ میں یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلبہ احتجاج کرتے رہے ہیں اور ایسے بیشتر مظاہرے پرامن رہے۔ تاہم بعض یونیورسٹیوں میں سکیورٹی فورسز نے سیکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا۔ ان میں بعض کو رہا کر دیا گیا جبکہ بعض طلبہ کو جرمانوں یا تعلیمی پابندیوں کا سامنا ہے۔ 

ہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ انتظامیہ اور نفاذ قانون سے متعلق حکام کی جانب سے آزادی اظہار پر قدغن کے مترادف ان اقدامات کا بالاحتیاط جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح یہ یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ صحت عامہ یا نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے سکیورٹی فورسز کی ضروری  کارروائی جائز حد سے تجاوز نہ کرے۔ 

طاقت کا غیرمتناسب استعمال

ہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ بہت سی یونیورسٹیوں میں سکیورٹی فورسز نے غیرمتناسب طاقت کا استعمال کیا۔ واضح طور پر یہود مخالف رویہ اور اظہار ناقابل قبول اور پریشان کن ہے۔ اسی طرح عرب اور فلسطین مخالف رویہ اور اظہار بھی قابل مذمت ہے۔ 

حقیقی یا فرضی شناخت یا نقطہ ہائے نظر کی بنیاد پر تشدد یا نفرت کی ترغیب کو سختی سے مسترد کیا جانا چاہے۔ دنیا پہلے ہی بارہا مشاہدہ کر چکی ہے کہ ایسی خطرناک بیان بازی بہت جلد حقیقی تشدد کا سبب بن جاتی ہے۔

ایسے متشدد واقعات کا الگ الگ جائزہ لیا جانا چاہیے اور چند لوگوں کے ناقابل قبول نقطہ ہائے نظر پر تمام مظاہرین کو قصوروار قرار دینا درست نہیں۔

انسانی حقوق برقرار رکھنے کا مطالبہ 

وولکر ترک نے کہا ہے کہ یونیورسٹیوں کی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عوامی احتجاج سے نمٹتے وقت انسانی حقوق کے قانون کو مدنظر رکھنا ہو گا، لوگوں کو مکالمے کی آزادی دینا ہو گی اور سبھی کے لیے محفوظ جگہوں کو تحفظ مہیا کرنا ہو گا۔ 

امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ کی فعالیت، مباحثوں، آزادی اظہار اور پرامن اجتماع کی مضبوط اور تاریخی روایت رہی ہے۔ یہ بات مدنظر رہنی چاہے کہ آزادی اظہار سے جائز طور پر کام لینے کو تشدد اور نفرت سے خلط ملط نہیں کیا جا سکتا۔