انسانی کہانیاں عالمی تناظر

نفرت انگیز مواد کی روک تھام کے لیے سماجی میڈیا کے ’محاسبے کی فوری ضرورت‘

کولاریڈو میں نفرت انگیزی کے خلاف ایک مظاہرہ۔
© Unsplash/Colin Lloyd
کولاریڈو میں نفرت انگیزی کے خلاف ایک مظاہرہ۔

نفرت انگیز مواد کی روک تھام کے لیے سماجی میڈیا کے ’محاسبے کی فوری ضرورت‘

انسانی حقوق

دنیا میں سوشل میڈیا کے کئی سب سے بڑے اداروں کے سربراہوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے کاروباری انداز میں تبدیلی لائیں اور آن لائن دنیا میں نفرت کے بڑھتے ہوئے اظہار کے خلاف جنگ میں مزید ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

اقوام متحدہ کی جانب سے مقرر کردہ انسانی حقوق کے دو درجن سے زیادہ ماہرین بشمول تین مختلف ورکنگ گروپس اور متعدد خصوصی اطلاع کاروں نے ایک مفصل بیان میں سوشل میڈیا کے اداروں کے منتظمین اعلیٰ کو ان کا نام لے کر مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے زیر قیادت کمپنیاں ''آزادی اظہار کے بین الاقوامی معیارات کی مطابقت سے ایسے آن لائن بیانات اور سرگرمیوں سے فوری طور پر نمٹیں جن میں نفرت پھیلائی جاتی ہے اور جن سے تفرقے کو فروغ ملتا ہے۔''

Tweet URL

تبدیلی کا وقت

انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی دنیا کے نئے ارب پتی اور ٹویٹر کے مالک ایلون مسک، میٹا کے مارک زکربرگ، گوگل کی آبائی کمپنی الفابیٹ کے سربراہ سندر پچائی، ایپل کے ٹم کک اور سوشل میڈیا کے دیگر اداروں کے منتظمین اعلیٰ کو چاہیے کہ وہ ''انسانی حقوق، نسلی انصاف، احتساب، شفافیت، کاروباری سماجی ذمہ داری اور اخلاقیات کو اپنے کاروبار کے نمونوں میں بنیادی اہمیت دیں۔''

انہوں نے یاد دلایا کہ کاروباروں کی حیثیت سے نسلی انصاف اور انسانی حقوق کے حوالے سے جوابہ دہ ہونا ''ایک بنیادی سماجی ذمہ داری ہے اور انسانی حقوق کے احترام سے ان کمپنیوں اور ان کے حصہ داروں کا طویل مدتی مفاد وابستہ ہے۔''

انہوں نے واضح کیا کہ نسلی تفریق کے خاتمے کا بین الاقوامی کنونشن، شہری و سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ اور کاروبار و انسانی حقوق سےمتعلق اقوام متحدہ کے رہنما اصول اس مقصد کے حصول کے لیے واضح راہ عمل مہیا کرتے ہیں۔ 

نفرت کے خلاف ذمہ داری نبھائیں

انہوں نے کہا کہ ''ہم سوشل  میڈیا کے اداروں کے تمام منتظمین اعلیٰ اور رہنماؤں پر زور دیتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کے احترام اور نسلی بنیاد پر نفرت سے نمٹنے کے لیے اپنی ذمہ داری کو کماحقہ پورا کریں۔

انسانی حقوق کونسل کے متعین کردہ غیرجانبدار ماہرین نے نفرت پر مبنی اظہار پر قابو پانے میں کاروباری اداروں کی ناکامی کی مثال دیتے ہوئے ٹویٹر پر نسل پرستانہ لفظ 'این'کے استعمال میں تیزی سے ہونے والے اضافے کا حوالہ دیا جو ٹیسلا کمپنی کے مالک ایلون مسک کی جانب سے حالیہ عرصہ میں ٹویٹر کو خریدنے کے بعد سامنے آیا ہے۔

ماہرین نے کہا کہ ''اس سے یہ فوری ضرورت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ سوشل میڈیا کی کمپنیوں کو ''افریقی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے نفرت کے اظہار پر مزید ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔''

ماہرین کا کہنا ہے کہ ''ایلون مسک کی جانب سے ٹویٹر کا انتظام سنبھالنے کے بعد امریکہ میں رٹگرز یونیورسٹی کے 'نیٹ ورک کونٹیجن ریسرچ انسٹیٹیوٹ' نے واضح کیا کہ گزشتہ اوسط کے مقابلے میں 12 گھنٹوں کے دورانیے میں اس پلیٹ فارم پر لفظ 'این' کے استعمال میں تقریباً 500 گنا اضافہ ہو گیا ہے۔

حال ہی ٹویٹر کی ملکیت بدلنے سے سماجی رابطے کی اس مقبول پلیٹ فارم پر نفرت آمیز مواد میں اضافہ ہوا ہے۔
© Unsplash
حال ہی ٹویٹر کی ملکیت بدلنے سے سماجی رابطے کی اس مقبول پلیٹ فارم پر نفرت آمیز مواد میں اضافہ ہوا ہے۔

انسانی حقوق کا تحفظ

ٹویٹر کا کہنا ہے کہ اس کی بنیاد مخالفانہ مہموں پر ہے اور اس کے پلیٹ فارم پر نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں تاہم افریقی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف نفرت کااظہار انتہائی تشویشناک ہے اور انسانی حقوق پر مبنی ایک فوری جوابی اقدام کا تقاضا کرتا ہے۔

ماہرین نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر نفرت کا اظہار، یعنی قومی، نسلی اور مذہبی بنیاد پر نفرت جو کہ تفریق اور تشدد کو ہوا دیتی ہے، اور نسل پرستی محض ٹویٹر کے لیے ہی باعث تشویش نہیں بلکہ یہ سوشل میڈیا کے دیگر بڑے اداروں کا بھی مسئلہ ہے، ان میں میٹا کمپنی بھی شامل ہے'' جو قبل ازیں فیس بک کے نام سے جانی جاتی تھی۔

ماہرین نے کہا کہ اگرچہ بعض کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ نفرت پر مبنی اظہار کی اجازت نہیں دیتیں تاہم ان کی بیان کردہ پالیسیوں اور ان پر عملدرآمد کے مابین واضح خلا موجود ہے۔

غلط اطلاعات کا بے قابو پھیلاؤ

ماہرین کا کہنا ہے کہ ''یہ حقیقت اشتعال انگیز اشہتاروں، فیس بک پر غلط انتخابی اطلاعات اور سازشی کہانیوں سے متعلق مواد میں خاص طور پر نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ 'گلوبل وِٹنس' اور 'سَم آف اَس' کی حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے میٹا کمپنی مخصوص اشتہارات کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان شکایات کے جواب میں میٹا کا کہنا تھا کہ اس نے ''2020 میں ایک نگران بورڈ قائم کر کے اس حوالے سے ایک نمایاں قدم اٹھایا ہے۔''

طویل مدتی نگرانی

ماہرین نے تسلیم کیا کہ اس بورڈ کے لیے معقول مقدار میں مالی وسائل خرچ کیے گئے جس نے مواد کے حوالے سے تقریباً 20 لاکھ اپیلیں وصول کیں اور بہت سی سفارشات پیش کیں اور فیصلے دیے۔

تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ ''نگران بورڈ کی افادیت طویل مدتی طور پر ہی جانچی جا سکتی ہے اور اس مقصد کے لیے ''آن لائن پلیٹ فارم پر نسل پرستانہ نفرت کا مقابلہ کرنے کے ذرائع کا ازسرنو جائزہ لینے اور ان میں ضرورت کے مطابق تبدیلی لانے'' کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر متواتر عزم کی ضرورت ہو گی۔

نفرت انگیزی چاہے آن لائن ہو یا آف لائن اس سے جمہوریت اور انسانی حقوق کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
Unsplash/Dan Edge
نفرت انگیزی چاہے آن لائن ہو یا آف لائن اس سے جمہوریت اور انسانی حقوق کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

آزادی اظہار 'بے لگام آزادی' نہیں

انہوں نے کہا کہ 'او ایچ سی ایچ آر' کے سربراہ وولکر تُرک نے حالیہ دنوں ٹویٹر کے منتظم اعلیٰ ایلون مسک کے نام ایک کھلا خط لکھا جس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ''آزادی اظہار کا مطلب ایسی نقصان دہ غلط اطلاعات پھیلانے کی کھلی آزادی نہیں کہ جس سے لوگوں کو واقعتاً نقصان پہنچے۔''

جیسا کہ انہوں نے کہا، انسانی حقوق کا قانون واضح طور پر کہتا ہے کہ اظہار کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے تفریق، مخالفت یا تشدد کو بھڑکانے والی نفرت کا آغاز ہوتا ہے۔ ہم افریقی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور دیگر گروہوں کے خلاف نفرت کے پھیلاؤ اور ان سے نفرت پر مبنی اظہار کا عام مشاہدہ کرتے ہیں جس سے ناصرف ان کے حقوق کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ معاشرے میں بھی دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ ان مسائل پر قابو پانا دشوار ہوتا جا رہا ہے اور یہ ممالک میں کئی طرح کے عدم استحکام کا سبب بنتے ہیں۔''

'نسلی بنیاد پر تکلیف دہ تناؤ'

غیرجانبدار ماہرین نے کہا کہ نفرت کی آگ بھڑکانے کی اجازت دینا یا اس سے صرف نظر کرنا اور افریقی پس منظر سے تعلق رکھنے والوں یا دیگر پسماندہ گروہوں کے خلاف نفرت پر مبنی اظہار یا اس کی حمایت سے ''ناصرف ایسا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ یہ نسلی بنیاد پر شدید تکلیف دہ تناؤ اور مجروحیت  کا باعث بھی بنتے ہیں۔''

خصوصی اطلاع کار اور غیرجانبدار ماہرین جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے متعین کیے جاتے ہیں اور انسانی حقوق کے کسی خاص موضوع یا کسی ملک میں اس حوالے سے مخصوص صورتحال کا جائزہ لینے اور رپورٹ دینے کے خصوصی طریقہ ہائے کار کا حصہ ہیں۔ یہ عہدے اعزازی ہیں اور ماہرین کو ان کے کام پر کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔