انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انڈیا میں شمسی توانائی سے چلنے والا پہلا گاؤں ماحول دوستی اور خودانحصاری کی مثال

انڈیا کی ریاست گجرات کے گاؤں گودھیرا میں گھروں کی چھتوں پر سولر پینل لگے ہوئے ہیں۔
UN News
انڈیا کی ریاست گجرات کے گاؤں گودھیرا میں گھروں کی چھتوں پر سولر پینل لگے ہوئے ہیں۔

انڈیا میں شمسی توانائی سے چلنے والا پہلا گاؤں ماحول دوستی اور خودانحصاری کی مثال

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے انڈیا میں اپنے دو روزہ دورے کے موقع پر ریاست گجرات میں ایک مثالی مںصوبے کے مقام کا دورہ کیا جسے ملک میں شمسی توانائی سے ضرورت کی تمام بجلی حاصل کرنے والا پہلا گاؤں قرار دیا گیا ہے۔

انہوں ںے قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی پر اس گاؤں کے لوگوں کی ستائش کی اور کہا کہ قابل تجدید توانائی ناصرف مقامی سطح پر لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لا رہی ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد دے رہی ہے۔

42 سالہ بیوہ گڈوی کیلاش بین مودھیرا نامی اسی گاؤں میں رہتی ہیں جو یہاں صدیوں پرانی ہندو عبادت گاہ 'سوریا مندر' کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے اور اب سورج ہی سے حاصل کردہ توانائی سے کام لینے والے انڈیا کے پہلے گاؤں کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔

گڈوی کھیتی باڑی کرتی ہیں جس سے انہیں معمولی سی آمدنی ہوتی ہے اور اسی میں وہ اپنے گھرانے کا پیٹ پالتی ہیں۔ اب حکومت نے ان کے گھر پر شمسی پینل نصب کر دیے ہیں جس سے ان پر گھریلو اخراجات کا بوجھ کافی کم ہو گیا ہے۔

کیلاش بین کہتی ہیں کہ ''اس سے پہلے جب یہاں شمسی توانائی موجود نہیں تھی تو مجھے بجلی کے بل کی مد میں تقریباً 2000 روپے ادا کرنا پڑتے تھے جو میرے لیے بہت بڑی رقم تھی۔ لیکن شمسی پینل نصب ہونے کے بعد میرا بجلی کا بل ختم ہو گیا ہے۔ میرے گھر میں اب ریفریجریٹر سے واشنگ مشین تک ہر چیز شمسی توانائی پر چلتی ہے۔ اب مجھے بجلی کے بلی کی مد میں ایک روپیہ بھی نہیں دینا پڑتا۔''

ان کا کہنا ہے کہ ''بجلی کے بل پر خرچ ہونے والی رقم اب میرے اکاؤںٹ میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ میں اس رقم کو اپنی روزمرہ ضروریات اور اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتی ہوں۔''

آشابین ناصرف روایتی بجلی پر خرچ ہونے والی رقم بچا لیتی ہیں بلکہ زائد از ضرورت شمسی بجلی گرڈ میں واپس جانے سے انہیں حکومت کی جانب سے رقم بھی ملتی ہے۔
UN News
آشابین ناصرف روایتی بجلی پر خرچ ہونے والی رقم بچا لیتی ہیں بلکہ زائد از ضرورت شمسی بجلی گرڈ میں واپس جانے سے انہیں حکومت کی جانب سے رقم بھی ملتی ہے۔

قابل تجدید توانائی بحیثیت ذریعہ آمدنی

ماحول دوست اور قابل تجدید توانائی کے ذریعے کی جانب منتقلی سے اس گاؤں کے لوگوں برقی آلات کا زیادہ استعمال کرنے اور اس طرح اپنی زندگی کو باسہولت بنانے میں مدد ملی ہے کیونکہ اب انہیں زیادہ بجلی استعمال کرنے پر زیادہ بل ادا کرنے کی پریشانی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ شمسی توانائی ان کے لیے ذریعہ آمدنی بھی بنتی جا رہی ہے۔

38 سالہ آشا بین مہندرا بھائی اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''ہم اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور ہمیں زرعی سرگرمیوں پر خرچ ہونے والی بجلی کے عوض بھاری بل ادا کرنا پڑتا تھا۔ جب سے ہمارے گاؤں میں شمسی توانائی آئی ہے ہم بہت سی بجلی بچا رہے ہیں۔ اس سے پہلے ہمارا بجلی کا ماہانہ بل تقریباً 2000 روپے تک ہوتا تھا جبکہ اب ہمیں ضرورت سے زائد شمسی بجلی بنانے کے پیسے ملتے ہیں۔

اس طرح آشابین ناصرف روایتی بجلی پر خرچ ہونے والی رقم بچا لیتی ہیں بلکہ زائد از ضرورت شمسی بجلی گرڈ میں واپس جانے سے انہیں حکومت کی جانب سے رقم بھی ملتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ''جب شمسی توانائی کا منصوبہ شروع کرنے والی ٹیم پہلی مرتبہ ہمارے گاؤں میں آئی تو ہمیں اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ چنانچہ ہم نے شمسی پینل نصب کروانے سے انکار کر دیا۔ ہم اتنے پڑھے لکھے نہیں تھے کہ ہمیں شمسی توانائی کی سمجھ بوجھ ہوتی اور ہم اس کے بارے میں بہت کم جانتے تھے۔ لیکن بتدریج اس ٹیم نے ہمیں شمسی توانائی اور اس کے فوائد کے بارے میں سمجھایا اور بتایا کہ شمسی بجلی استعمال کر کے کیسے ہم بجلی اور پیسہ دونوں کی بچت کر سکتے ہیں اور پھر ہمیں اس میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔''

مقامی کسان جوڑے پنگل سنہا کرسن بھائی گڈوی اور سورج بین گڈوی نے چھ مہینے پہلے اپنے گھر کی چھت پر شمسی پینل نصب کروائے تھے۔

پنگل سنہا کرسن بھائی سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے نے انہیں ناصرف بجلی کے بل سے نجات دلائی ہے بلکہ زائد از ضرورت شمسی توانائی پیدا کرنے سے حاصل ہونے والی آمدنی بڑھاپے میں ان کے کام آئے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ''پہلے ہم ہر ماہ بجلی کے بل کی مد میں 3000 روپے ادا کرتے تھے اور شمسی توانائی کی بدولت اب ہمیں اس مد میں ایک روپیہ بھی نہیں دینا پڑتا اور اس طرح ماہانہ تین ہزار روپے کی بچت کر رہے ہیں۔''

ان کا کہنا ہے کہ ''ان شمسی پینلوں نے پورے گاؤں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ گاؤں میں سکولوں اور سرکاری دفاتر سمیت تمام اداروں کو اس سے فائدہ ہوا ہے۔ ذاتی طور پر میں 3000 روپے بچا رہا ہوں۔ اب ہم فاضل بجلی نہیں لیتے۔ ہمارا پورا گھر شمسی توانائی پر چل رہا ہے۔''

سوریا مندر میں اب تھری ڈی روشنیوں کا نظارہ پوری طرح شمسی توانائی کے ذریعے ہوتا ہے اور اس مندر کے احاطے کو بھی شمسی توانائی سے روشن کیا جاتا ہے۔
UN News
سوریا مندر میں اب تھری ڈی روشنیوں کا نظارہ پوری طرح شمسی توانائی کے ذریعے ہوتا ہے اور اس مندر کے احاطے کو بھی شمسی توانائی سے روشن کیا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ''یہ بچت ہمارے بڑھاپے کی پینشن کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں اس پر بہت خوشی ہے۔''

ان کی اہلیہ سورج بین بھی بہت خوش ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ گاؤں کے دوسرے لوگ بھی انہی کی طرح شمسی توانائی سے فائدہ اٹھائیں۔''

وہ کہتی ہیں کہ ''اگر ملک بھر میں شمسی توانائی استعمال ہونے لگے تو اس سے واقعتاً بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے سوریا دیوتا ہمیں اپنی روشنی سے توانائی مہیا کر رہا ہے۔ ہمارے مودھیرا گاؤں کو جو فائدہ ہوا ہے اسے پورے ملک تک پہنچنا چاہیے۔''

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اپنے دورے میں مودھیرا کے دیہاتیوں سے بات کرتے ہوئے انڈیا کی حکومت اور مقامی رہائشیوں کی کوششوں کو سراہا۔

ان کا کہنا تھا کہ ''ا1000 سال پہلے اس جگہ سوریا مندر تعمیر کیا گیا تھا اور اب یہاں سورج کا ایک نیا مندر بن گیا ہے جو شمسی توانائی مہیا کرتا ہے۔ شمسی توانائی ناصرف اس گاؤں کے لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لا رہی ہے اور انہیں مزید صحت مند اور خوشحال بنا رہی ہے بلکہ یہ ہماری زمین کو بے قابو موسمیاتی تبدیلی سے تحفظ دینے میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔''

سوریا دیوتا: شمسی توانائی کے حصول کا محرک

مودھیرا گاؤں گجرات کے ضلع مہسانا کے شہر احمد آباد سے 97 کلومیٹر فاصلے پر ہے اور گجرات کا مشہور سوریا مندر اس گاؤں میں واقع ہے۔

سوریا مندر اور اس پورے گاؤں کو سوریا دیوتا کی توانائی (شمسی توانائی) مہیا کرنے کے لیے یہ اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے جس میں دیہاتیوں کو ماحول دوست توانائی کے ذریعے خود انحصار بنانے کا تصور کیا گیا ہے۔

گجرات کی حکومت میں توانائی اور پیٹروکیمیکل کے محکمے کی پرنسپل سیکرٹری ممتا ورما کہتی ہیں کہ ''اس منصوبے کے پیچھے یہ تصور کارفرما ہے کہ 'مودھیرا مندر سوریا دیوتا کا مندر ہے اس لیے اس قصبے اور مقامی لوگوں کو درکار تمام تر توانائی سورج سے ملنی چاہیے۔''

سوریا مندر میں اب تھری ڈی روشنیوں کا نظارہ پوری طرح شمسی توانائی کے ذریعے ہوتا ہے اور اس مندر کے احاطے کو بھی شمسی توانائی سے روشن کیا جاتا ہے اور پارکنگ کی جگہ پر بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے چارجنگ سٹیشن بھی بنائے گئے ہیں۔

سوریا مندر کے پاس بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو چارج کرنے کا انتظام بھی ہے۔
UN News
سوریا مندر کے پاس بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو چارج کرنے کا انتظام بھی ہے۔

قابل تجدید توانائی کا ذخیرہ

مودھیرا میں گھروں کی چھتوں، سرکاری سکولوں، بس سٹاپ، سرکاری خدمات مہیا کرنے والی عمارتوں، گاڑیوں کی پارکنگ اور سوریا مندر کے احاطے میں بھی بہت بڑی تعداد میں شمسی پینل دکھائی دیتے ہیں اور اس طرح یہ گاؤں قریبی سُجن پورہ گاؤں میں نصب چھ میگاواٹ صلاحیت کے پاور پلانٹ سے اپنی توانائی کی تمام تر ضروریات پوری کرتا ہے۔ چونکہ مودھیرا میں بجلی کی مجموعی کھپت ایک سے دو میگا واٹ ہے اس لیے فاضل بجلی ٹرانسمیشن گرڈ میں جمع ہو جاتی ہے۔

گجرات پاور کارپوریشن لمیٹڈ (جی پی سی ایل) کے چیف پراجیکٹ آفیسر راجندرا مستری کہتے ہیں کہ ''اس پورے منصوبے کے تین بڑے اجزا ہیں۔ ان میں ایک زمین پر نصب ہمارا چھ میگاواٹ کا منصوبہ، دوسرا 15 میگاواٹ کا بیٹری سٹوریج سسٹم اور تیسرا 1300 گھروں کی چھتوں پر نصب ایک کلوواٹ کے شمسی پینل ہیں۔''

ان کا کہنا ہے کہ ''ہم نے گاؤں میں ایک ہزار چھتوں پر جو شمسی پینل نصب کیے ہیں ان سے حاصل ہونے والی بجلی کو پہلے گاؤں کے لوگ استعمال کرتے ہیں اور پھر بچ رہنے والی توانائی گرڈ کو دے دی جاتی ہے۔''

9.7 ملین ڈالر لاگت کے اس منصوبے کے لیے انڈیا کی مرکزی اور گجرات کی ریاستی حکومت نے مالی وسائل مہیا کیے ہیں۔ اس منصوبے کو جو بات دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ مودھیرا کو خالص قابل تجدید توانائی پیدا کرنے والے انڈیا کے پہلا گاؤں کا درجہ بھی حاصل ہو گیا ہے۔

گجرات پاور کارپوریشن لمیٹڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر وکالپ بھردواج کہتے ہیں کہ ''یہ انڈیا کا پہلا گاؤں ہے جہاں رات کے وقت استعمال ہونے والی بجلی بھی شمسی ذرائع سے آتی ہے۔ یہی اس منصوبے کی خاص بات ہے۔''

انڈین ریاست گجرات کے گاؤں مودھیرا میں سکولوں اور بس سٹاپوں سمیت تمام سرکاری عمارتیں شمسی توانائی سے بجلی حاصل کر رہی ہیں۔
UN News
انڈین ریاست گجرات کے گاؤں مودھیرا میں سکولوں اور بس سٹاپوں سمیت تمام سرکاری عمارتیں شمسی توانائی سے بجلی حاصل کر رہی ہیں۔

مستقبل کا تصور

یہ مثالی منصوبہ متوقع طور پر قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے بارے میں آگاہی فراہم کرے گا۔ اگر یہ منصوبہ معاشی طور پر قابل عمل ثابت ہوا تو اسے گجرات کے دیگر دیہی علاقوں میں بھی شروع کیا جائے گا۔

بھردواج کا کہنا ہے کہ ''اس طرح کا منصوبہ انڈیا میں دیگر دیہات اور قصبوں کے لیے مثال ہے۔ اسی طرح دوسرے گاؤں اور قصبے بھی اس جیسا منصوبہ شروع کر کے اپنی توانائی کی ضروریات میں خود انحصاری اور خود کفالت حاصل کر سکتے ہیں۔''

مودھیرا کی رہائشی آشابین مہندرا بھائی اس منصوبے کے فوائد خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ''میں دیگر دیہات کی حوصلہ افزائی کروں گی کہ وہ بھی شمسی توانائی سے کام لیں کیونکہ یہ رقم سے لے کر بجلی کی بچت تک ہر پہلو سے مفید ہے۔''

سورج سے توانائی کا حصول

  • 1300 سے زیادہ گھرانوں کے پاس اپنے مکانات کی چھتوں پر ایک کلو واٹ شمسی توانائی پیدا کرنے کا نظام موجود ہے۔
  • مودھیرا، سملن پورہ اور سُجن پورہ کے دیہات میں متعدد سرکاری عمارتوں کی چھتوں پر 316 کلوواٹ کے شمسی پی وی نظام نصب ہیں۔
  • سُجن پورہ میں زمین پر گرڈ سے منسلک 6 میگا واٹ کا شمسی پی وی پاور پلانٹ لگایا گیا ہے۔
  • سُجن پورہ میں15 میگا واٹ آور، 6 میگا واٹ کا بیٹری انرجی سٹوریج نظام (بی ای ایس ایس) نصب ہے۔
  • مودھیرا میں صرف ایک میگا واٹ شمسی بجلی استعمال ہوتی ہے اور بقیہ گرڈ میں شامل کر دی جاتی ہے۔
  • بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے 1700 سے زیادہ سمارٹ انرجی میٹر نصب کیے گئے ہیں۔
  • اپنی توانائی کی ہر ضرورت شمسی توانائی سے پوری کرنے والے سوریا مندر میں تھری ڈی روشنیوں کا مکمل نظارہ قابل تجدید توانائی کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔
  • سوریا مندر کے قریب سینسر کی بنیاد پر کام کرنے والی سٹریٹ لائٹس نصب کی گئی ہیں۔
  • سوریا مندر کی پارکنگ میں 50 کلو واٹ شمسی توانائی مہیا کرنے کے لیے 150 کلو واٹ آور کا بیٹری سٹوریج نظام اور برقی گاڑیوں کے لیے چارجنگ سٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔