انسانی کہانیاں عالمی تناظر

بحیرۂ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کا اقدام کیا ہے اور یہ دنیا کے لیے کیوں اہم ہے؟

دارالسلام کی بندرگاہ پر اناج افریقہ بھیجنے کی تیاری کی جا رہی ہے
© FAO/Giuseppe Bizzarri
دارالسلام کی بندرگاہ پر اناج افریقہ بھیجنے کی تیاری کی جا رہی ہے

بحیرۂ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کا اقدام کیا ہے اور یہ دنیا کے لیے کیوں اہم ہے؟

انسانی امداد

یوکرین پر روس کا حملہ شروع ہونے کے بعد یوکرین سے اناج اور روس سے خوراک اور کھادوں کی برآمدات نمایاں طور سے متاثر ہوئی ہیں۔ ان اشیاء کی ترسیلات میں خلل آنے سے بڑھتی ہوئی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے جس سے خوراک کے عالمگیر بحران نے جنم لیا ہے۔ یوکرین سے کھادوں اور خوراک کی ضروری برآمدات کی دنیا بھر میں دوبارہ ترسیل شروع کرنے کے لیے اقوام متحدہ اور ترکی کی ثالثی کے ذریعے بحیرۂ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کا اقدام شروع کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے چند اہم باتیں درج ذیل ہیں۔

1۔ ضروری اشیاء کی ترسیل دوبارہ شروع کرنے کا معاہدہ

یوکرین اناج برآمد کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہے جو عام طور پر ہر سال عالمی منڈیوں میں تقریباً 45 ملین ٹن اناج بھیجتا ہے۔ لیکن فروری 2022 کے اؤاخر میں ملک پر روس کے حملے کے بعد اس کے گوداموں میں اناج کے ڈھیر لگ گئے تھے کیونکہ بحری جہازوں کو یوکرین کی بندرگاہوں پر آنے جانے کے لیے محفوظ راستہ نہیں مل رہا تھا اور جنگ کے باعث زمینی راستوں سے اس کی ترسیل ممکن نہیں تھی۔

اس طرح دنیا بھر میں عام خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ توانائی کی قیمت بڑھنے سے ترقی پذیر ممالک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئے اور لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد قحط کے دھانے پر آ گئی۔

22 جولائی کو اقوام متحدہ، روس، ترکی اور یوکرین نے ترک دارالحکومت استنبول میں بحیرۂ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کے اقدام پر اتفاق کیا اور اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے پر دستخط کیے۔

اس معاہدے کی بدولت یوکرین میں پیدا ہونے والے اناج، دیگر اقسام کی خوراک اور کھادوں بشمول امونیا کی برآمدات ایک محفوظ سمندری امدادی راہداری کے ذریعے جاری رکھنے میں مدد ملی۔ یہ برآمدات یوکرین کی تین اہم بندرگاہوں سے دنیا بھر میں بھیجی جانا تھیں جن میں کورنومورسک، اوڈیسا اور یوزنی/پیوڈینی شامل ہیں۔

اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے استنبول میں روس، ترکی، یوکرین اور اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی نمائندوں پر مشتمل ایک مشترکہ رابطہ مرکز (جے سی سی) قائم کیا گیا۔

اس حوالے سے جے سی سی کی جانب سے جاری کردہ طریقہ ہائے کار کے مطابق جو بحری جہاز اس اقدام کے تحت ترسیلات لے جانا چاہیں انہیں پہلے استنبول میں معائنہ کروانا ہو گا تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ ان میں کوئی دوسرا سامان نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ سمندری امدادی راہداری کے ذریعے یوکرین کی بندرگاہوں پر جا کر سامان اٹھائیں گے۔ یہ راہداری جے سی سی نے بنائی ہے اور بحری جہازوں کے محفوظ سفر کے لیے اس کی چوبیس گھنٹے نگرانی کی جا رہی ہے۔ یوکرین کی بندرگاہوں سے سامان لے کر واپس آنے والے بحری جہازوں کا بھی استنبول میں مخصوص جگہ پر معائنہ کیا جائے گا۔

انڈیا میں ایک خاتون اناج چھانتے ہوئے۔
World Bank/Ray Witlin
انڈیا میں ایک خاتون اناج چھانتے ہوئے۔

2۔ یوکرین سے لاکھوں ٹن اناج کی برآمد

اس اقدام کے زیرنگرانی بحری جہازوں کی روانگی یکم اگست سے شروع ہوئی۔ مہینے کے اختتام تک ایک ملین ٹن سے زیادہ اناج اور دیگر اقسام کی خوراک سے لدے 100 سے زیادہ بحری جہاز یوکرین سے روانہ ہوئے۔ ستمبر کے وسط تک جے سی سی نے اطلاع دی کہ تین ملین ٹن اناج یوکرین سے روانہ ہو چکا ہے جو کہ ایک مثبت پیش رفت کا اشارہ تھا۔ امید ہے کہ بالآخر ہر ماہ پانچ ملین ٹن اناج برآمد کیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اب تک یوکرین سے بھیجے جانے والے اناج اور دیگر خوراک میں 51 فیصد مکئی، 25 فیصد گندم، 11 فیصد سن فلاور کی اشیا، چھ فیصد تلی کا بیج، پانچ فیصد جو، ایک فیصد سویا بین اور ایک فیصد دیگر غذائی اشیا شامل ہیں۔

3۔ اناج کا چوتھا حصہ سیدھا کم آمدنی والے ممالک کو روانہ

25 فیصد سامان نچلے اور نچلے متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک کو برآمد کیا گیا ہے جن میں مصر (8 فیصد)، انڈیا اور ایران (ہر ایک کو 4 فیصد) بنگلہ دیش، کینیا اور سوڈان (ہر ایک کو 2 فیصد)، لبنان، یمن، صومالیہ، جبوتی (ہر ایک کو 1 فیصد) اور تیونس (ایک فیصد سے کم) شامل ہیں۔

اس اقدام میں غذائی امداد پہنچانے والے اقوام متحدہ کے خصوصی بحری جہاز بھی شامل ہیں جن کے ذریعے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کی خریدی ہوئی گندم شاخِ افریقہ اور یمن میں پہنچائی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے دو خصوصی جہاز پہلے ہی یوکرین سے روانہ ہو چکے ہیں جبکہ مزید دو کی روانگی جلد متوقع ہے۔ ڈبلیو ایف پی نے شاخِ افریقہ، یمن اور افغانستان میں جاری امدادی سرگرمیوں میں معاونت کے لیے اب تک 120,000 میٹرک ٹن گندم خریدی ہے۔

ڈبلیو ایف پی کا پہلا خصوصی بحری جہاز 30 اگست کو جبوتی کی بندرگاہ پر پہنچا جس کا مقصد شاخِ افریقہ میں خشک سالی کا سامنا کرنے والے لوگوں کی مدد کرنا تھا۔ 37,000 میٹرک ٹن گندم سے لدا اقوام متحدہ کا دوسرا خصوصی بحری جہاز 30 اگست کو روانہ ہوا اور 3 ستمبر کوترکیہ پہنچا جہاں اس گندم سے آٹا بنایا تیار کیا جائے گا۔

اس کے بعد یہ آٹا ایک اور بحری جہاز پر لادا جائے گا جو ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت امدادی اقدامات میں معاونت کے لیے یمن کو روانہ ہو گا۔ ڈبلیو ایف پی کے تیسرے اور چوتھے خصوصی بحری جہاز کے ذریعے بھی امدادی کارروائیوں کے لیے گندم پہنچائی جائے گی۔

25 فیصد اناج بالائی اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک کو بھیجا گیا ہے جن میں ترکی، چین اور بلغاریہ شامل ہیں جبکہ 50 فیصد اناج بالائی آمدنی والے ممالک کو برآمد کیا گیا ہے جن میں سپین، نیدرلینڈز، اٹلی، جمہوریہ کوریا، رومانیہ، جرمنی، فرانس، یونان، آئرلینڈ اور اسرائیل جیسے ملک شامل ہیں۔

اقوام متحدہ نے نشاندہی کی ہے کہ اس اقدام کی بدولت یوکرین کی بندرگاہوں سے روانہ ہونے والے تمام اناج سے ضرورت مند لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے کیونکہ اس سے منڈیوں کو مستحکم اور خوراک کی قیمتوں کو صارفین کی قوت خرید کے مطابق رکھنے میں مدد مل رہی ہے۔

بحری جہازوں کی تمام نقل و حرکت کو بحیرۂ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کے اقدام کی ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے جس پر مفید حقائق اور اعدادوشمار بھی دیے گئے ہیں۔

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش اوڈیسہ میں بحری  جہاز پر اناج لادتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
UN Photo/Mark Garten
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش اوڈیسہ میں بحری جہاز پر اناج لادتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

4۔ خوراک کی قیمتوں میں کمی

اس بات کے قوی اشارے ملے ہیں کہ خوراک کی قیمتوں میں کمی آ رہی ہے اور اس طرح یہ اقدام اپنے ایک اہم مقصد کے حصول میں کامیاب ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے تجارتی ادارے 'یواین سی ٹی اے ڈی' کی سیکرٹری جنرل ریبیکا گرینسپین اور بحیرۂ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کے اقدام سے متعلق اقوام متحدہ کے رابطہ کار عامر عبداللہ نے اس حقیقت پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ قیمتوں میں گزشتہ پانچ ماہ سے مسلسل کمی آ رہی ہے۔ اس عرصہ میں خوراک کی قیمتوں کے اشاریے میں قریباً 14 فیصد کمی ہوئی ہے جو اس سال مارچ میں بلند ترین سطح پر تھا۔

عبداللہ نے واضح کیا کہ قیمتوں میں کمی کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو عناصر مہنگا اناج بیچنے کے لیے ذخیرہ اندوزی کر رہے تھے وہ اب اسے باہر نکالنے اور فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور اس طرح منڈیوں میں خوراک کی مقدار بڑھ گئی ہے جس سے قیمتیں مزید نیچے آئیں گی۔ گرینسپن نے بتایا کہ اس سے دنیا بھر میں رہن سہن کے اخراجات میں اضافے کا بحران بھی کم ہو رہا ہے۔ ریبیکا گرینسپین یوکرین میں جنگ کے اثرات کے باعث بدترین صورت اختیار کر جانے والے معاشی جھٹکوں سے نمٹنے میں دنیا بھر کے ممالک کو مدد دینے کے لیے بنائی گئی اقوام متحدہ کی عالمگیر ٹاسک ٹیم کی رابطہ کار بھی ہیں۔

دنیا بھر میں 80 سے زیادہ ممالک میں ریکارڈ 345 ملین لوگوں کو اس وقت شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے جبکہ 45 ممالک میں امداد سے محروم تقریباً 50 ملین لوگوں کو قحط کا شکار ہونے کا خدشہ ہے۔

اگست میں ڈبلیو ایف پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے کہا تھا کہ '' بحیرۂ اسود کی بندرگاہیں کھولنا وہ اہم ترین کام ہے جو ہم اس وقت دنیا کے بھوک کا شکار افراد کی مدد کے لیے کر سکتے ہیں۔'' انہوں نے خبردار کیا کہ اگرچہ صرف یہی کچھ کرنے سے دنیا میں بھوک ختم نہیں ہو جائے گی تاہم یوکرین کے اناج کو عالمی مںڈیوں میں واپس لانے سے عالمگیر غذائی بحران کو مزید پھیلنے سے روکنے کا امکان بہتر ہو جائے گا۔

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش استنبول میں ترک صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ بحیرۂ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔
UNIC Ankara/Levent Kulu

5۔ متواتر کامیابی کے لیے مسلسل تعاون ضروری

اقوام متحدہ کو پوری طرح علم ہے کہ یوکرین کی بندرگاہوں سے اناج کی محفوظ ترسیلات کے لیے یوکرین اور روس کا مسلسل تعاون درکار ہو گا۔ عبداللہ نے اس اقدام کے فریقین کے مابین ''تعاون کے جذبے'' کو سراہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ ترکی اور اقوام متحدہ اس عمل کو جاری رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ جنگ کب ختم ہو گی اور اس طرح مستقبل کے بارے میں بھی غیریقینی کیفیت برقرار ہے۔ اگر فریقین چاہیں تو اس اقدام کو 22 جولائی سے شروع ہونے والی اس کی ابتدائی 120 روزہ مدت سے آگے بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ استنبول میں جے سی سی کی ٹیم پہلے ہی اس معاہدے کی مدت میں توسیع کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ عبداللہ اس حوالے سے مثبت رائے رکھتے ہیں اور انہوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ''اقوام متحدہ کی جانب سے ثالثی کی کوششوں کے ہوتے ہوئے اس بارے میں زیادہ بحث مباحثے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔''