انسانی کہانیاں عالمی تناظر
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ یونیورسل ہیلتھ کوریج اقوام متحدہ کا ایک اہم ترین مقصد ہے۔

غیرمنصفانہ اور متروک عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت: گوتیرش

UN Photo/Jean Marc Ferré
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ یونیورسل ہیلتھ کوریج اقوام متحدہ کا ایک اہم ترین مقصد ہے۔

غیرمنصفانہ اور متروک عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت: گوتیرش

اقوام متحدہ کے امور

یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ کہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں عالمی رہنماؤں کی شرکت یا عدم شرکت سے زیادہ اہم یہ یقینی بنانا ہے کہ رکن ممالک کے نمائندے پائیدار ترقی کے اہداف سے متعلق ضروری وعدے کرنے کے لیے تیار ہوں کیونکہ بدقسمتی سے ان اہداف کی جانب درست سمت میں پیش رفت نہ ہونا ایک حقیقت ہے۔

یو این نیوز: ہم ایسے موقع پر بات کر رہے ہیں جب جنرل اسمبلی کا 78واں اجلاس شروع ہونے کو ہے۔ یوں تو اس موقع پر دنیا بھر سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت متوقع ہے لیکن سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے صرف ایک ملک کے سربراہ ہی شریک ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال میں سفارت کاری کے مرکز کی حیثیت سے اقوام متحدہ کہاں کھڑا دکھائی دیتا ہے جبکہ دنیا کو بہت سے محاذوں پر بحرانوں کا سامنا ہے؟

یو این نیوز کی میتا ہوسالی کو انٹرویو دیتے ہوئے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا کہ موجودہ حالات یوکرین میں امن کے لیے سنجیدہ بات چیت کے لیے غالباً سازگار نہیں ہیں۔
UN Photo/Mark Garten
یو این نیوز کی میتا ہوسالی کو انٹرویو دیتے ہوئے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا کہ موجودہ حالات یوکرین میں امن کے لیے سنجیدہ بات چیت کے لیے غالباً سازگار نہیں ہیں۔

سیکرٹری جنرل: پہلی بات تو یہ کہ جنرل اسمبلی کا اجلاس کوئی تفریحی میلہ نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی ادارہ ہے جس میں حکومتوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ کسی ایسے فرد کو اپنی جانب سے بات کرنے کے لیے بھیجتی ہیں جو اس مقصد کے لیے موزوں ترین ہوتا ہے۔ 

لہٰذا پریشانی یہ نہیں کہ کون آ رہا ہے اور کون نہیں۔ اس کے بجائے مجھے یہ یقینی بنانے کی فکر ہے کہ یہاں آنے والے ممالک ایسے وعدوں کے لیے تیار ہوں جو پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہیں اور بدقسمتی سے ان پر درست سمت میں پیش رفت نہیں ہو رہی۔ اس مقصد کے لیے ہمیں بہت سے اہم معاملات پر وعدے لینا ہوں گے۔ 

سب سے پہلے تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارا عالمی مالیاتی نظام غیرمنصفانہ، کئی مسائل کا شکار اور دور حاضر کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ اس نظام میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ 

دوسری بات یہ کہ ہم نے پائیدار ترقی کے اہداف تک تیزی سے پہنچنے کے ایک طریقہ کار سے متعلق تجویز تیار کی ہے۔

ہمیں یہ یقینی بنانے کے لیے 500 ارب ڈالر کی ضرورت ہے کہ قرضوں میں ڈوبے، مالیاتی گنجائش اور رعایتی قیمت پر یا طویل مدتی مالی وسائل تک رسائی سے محروم ترقی پذیر ممالک بھی یہ اہداف حاصل کر سکیں۔ ان میں سے بیشتر کے لیے ایسا کرنا اس لیے ممکن نہیں کیونکہ وہ متوسط درجے کی آمدنی والے ملک ہیں۔ 

افریقہ تعلیم سے زیادہ وسائل قرضوں کی واپسی پر خرچ کر رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے لیے پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول یقینی بنانے کے لیے غیرمنصفانہ بین الاقوامی مالیاتی نظام میں تبدیلی لانا کس قدر ضروری ہے۔ 

دوسری جانب یہ اجلاس ممالک کے لیے ایک جگہ جمع ہونے اور امن کے لیے وعدے کرنے کا بھی موزوں موقع ہو گا۔ ہمیں دنیا بھر میں بہت سے بحرانوں کا سامنا ہے اور امن کے لیے عالمی برادری کے مضبوط تر عزم کی ضرورت ہے۔ 

اس اجلاس میں موسمیاتی عزم کی کانفرنس بھی ہو گی۔ ہم ممالک، کمپنیوں، سول سوسائٹی اور دیگر متعلقہ فریقین سے کہہ رہے ہیں کہ وہ آئیں اور اپنے نئے منصوبوں کی تفصیلات بتائیں اور ایسے نئے وعدے کریں جن کی بدولت گرین ہاؤس گیسوں میں اضافے کے موجودہ رحجان کو پلٹا جا سکے جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی بے قابو ہو چکی ہے۔ اس صدی کے آخر تک عالمی حدت میں اضافہ 2.6 سے   2.8ڈگری سیلسیئس تک پہنچ جائے گا جبکہ ہمیں اسے1.5  ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنا ہے جو کہ ہمارا ہدف ہے۔

Tweet URL

اس مقصد کے لیے ہمارے پاس اب بھی وقت ہے۔ سیاسی ارادے کی بدولت اس ہدف کا حصول اب بھی ممکن ہے لیکن ہمیں معدنی ایندھن کا استعمال ختم کرنے، قابل تجدید توانائی اور بہت سے معاشی و سماجی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ رحجان کا خاتمہ ہو سکے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ قدرتی آفات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور ہر جگہ یہ پہلے سے کہیں زیادہ تباہ کن ہوتی جا رہی ہیں۔ خشک سالی بہت بڑے علاقوں کو ایسی جگہوں میں بدل رہی ہے جہاں زندگی کرنا ممکن نہیں رہا۔ گرین لینڈ اور قطب جنوبی کی برف پگھلنے سے سمندری سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 

لہٰذا یہ فیصلہ کن اقدامات کا وقت ہے اور موسمیاتی عزم سے متعلق کانفرنس کا بھی یہی مقصد ہے۔ میں نے جن اقدامات کا ذکر کیا ہے ان پر کامیابی سے عملدرآمد کے لیے رکن ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور اشتراک کرنا ہو گا اور اس موقع پر سول سوسائٹی کی موجودگی اور اس کا متحرک ہونا بھی ضروری ہے۔ 

جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے سے پہلے اقوام متحدہ میں کاروباری برادری اور سول سوسائٹی کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف، دنیا میں انصاف اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کی حمایت میں حکومتوں کے علاوہ دیگر کردار بھی مضبوط سیاسی ارادہ رکھتے ہیں۔ 

یو این نیوز: آپ نے موسمیاتی عزم کی کانفرنس کا تذکرہ کیا تاہم یہ بہت غیرمعمولی بات ہے کہ اس میں جنہیں خطاب کے لیے مدعو کیا گیا ہے ان کے پاس نیٹ زیرو کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے قابل اعتبار مںصوبے ہیں۔ چنانچہ بہت سے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ نے یہ اختراعی سوچ کیوں اپنائی؟ 

سیکرٹری جنرل: میں سمجھتا ہوں کہ ایسی مہمات اور ایسے اقدامات ضروری ہیں جن میں سبھی کی شمولیت ہو۔ 

ایسے لوگوں کو مواقع دینا ضروری ہے جو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اگلی صفوں میں جدوجہد کر رہے ہیں، جو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کے لیے سب سے زیادہ پُرعزم ہیں اور جو اس معاملے میں بہترین طریقہ ہائے کار سے کام لے رہے ہیں۔ انہیں موقع دینا ضروری ہے تاکہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ وہ دوسروں کے لیے کیا کر رہے ہیں اور دوسرے بھی ان سے سیکھیں اور ان کے اختیار کردہ طریقوں کو اپنائیں۔ 

یو این نیوز: اقدامات سے بھرپور اس ہفتے کے آغاز پر پائیدار ترقی کی کانفرنس ہو رہی ہے، بدھ کو موسمیاتی عزم کی کانفرنس کا انعقاد ہونا ہے، تاہم اس کے ساتھ عالمگیر صحت پر بھی تین کانفرنسیں رکھی گئی ہیں۔ ان میں ایک ٹی بی پر، دوسری یونیورسل ہیلتھ کوریج اور تیسری وباؤں سے نمٹنے کی تیاری سے متعلق ہے۔ 

کووڈ۔19 وبا میں ہم نے یکجہتی کا بڑے پیمانے پر فقدان دیکھا اور عدم مساوات کا مشاہدہ کیا جب بہت سے ممالک کے پاس زندگی کو تحفظ دینے کے لیے ضروری طبی سازوسامان تک واقعتاً بہت کم رسائی تھی۔ اس سے ارضی سیاسی تعلقات بھی متاثر ہوئے۔ ایسے میں آپ عالمی سطح پر صحت عامہ کے حوالے سے کون سے اقدامات کو ضروری خیال کرتے ہیں؟ 

سیکرٹری جنرل: سب سے پہلی بات یہ کہ یونیورسل ہیلتھ کوریج اقوام متحدہ کا ایک اہم ترین مقصد ہے۔ اس کے لیے ناصرف ہمارے نظام کا اچھے طریقے سے کام کرنا ضروری ہے بلکہ یہ مقصد عالمی نظام ہائے مالیات کو مزید منصفانہ بنانے کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ 

ایجادی حقوق اور ادویہ ساز صنعت کے طریقہ کار کے حوالے سے بھی بہت سے مسائل حل طلب ہیں۔ مت بھولیں کہ ادویہ سازی میں 90 فیصد سرمایہ کاری ایسی بیماریوں پر ہوتی ہے جن کا تعلق دنیا کے شمالی حصے سے ہے۔ یہ سرمایہ کاری دنیا کے جنوبی حصے کی صرف 10 فیصد بیماریوں کا احاطہ کرتی ہے۔  

لہٰذا اس طریقہ کار کی ساخت ہی عدم مساوات پر مبنی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے عالمی ادارہ صحت کے وسائل اور اختیار میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔ 

وبا کے تجربے کی بات ہو تو طبی فیصلے لینے، ہر فرد کو معلومات کی فراہمی اور ان کا تبادلہ، وباؤں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اقدامات اور دنیا میں انتہائی غیرمعمولی طبی مسائل پر قابو پانے کے طریقہ کار میں عالمی ادارہ صحت کا مضبوط تر اثرورسوخ ہونا چاہیے۔ 

تپ دق کو بہت سے لوگ بھول گئے ہیں لیکن یہ اب بھی دنیا میں پھیلی تکالیف کا بہت بڑا سبب ہے۔ 

یو این نیوز: آپ نے بعض بہت بڑے مسائل کا تذکرہ کیا ہے جن کا دنیا کو مقابلہ کرنا ہے لیکن میرے خیال میں ہم سب جانتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ کا مسئلہ جنرل اسمبلی اور اقوام متحدہ پر حاوی رہے گا جو کہ سفارت کاری کا پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔

آپ امن کے لیے بات چیت کے امکان کی بابت کیا کہیں گے؟ کیا آپ کو امید ہے کہ بحیرہ اسود کے راستے اناج کی برآمد کے اقدام کو بحال کرنے کا کوئی راستہ موجود ہے جس سے دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کو سہولت ملی۔

سیکرٹری جنرل: ہم اس کی بحالی کے لیے کڑی محنت کر رہے ہیں۔ ہم یہ یقینی بنانے کے لیے تندہی سے کام کر رہے ہیں کہ یوکرین اور روس میں پیدا ہونے والی خوراک اور کھادوں کو عالمی منڈیوں تک پوری رسائی ملے۔ یہ بالکل ضروری ہے لیکن اس اقدام میں روس کی شمولیت ختم ہو جانے کے بعد ہمیں بحیرہ اسود میں جن غیرمعمولی حالات کا سامنا ہے ان میں مشکلات کی حقیقی شدت ہمارے مدنظر ہے۔ 

دوسری جانب ہمارا بنیادی مقصد امن ہے لیکن اسے منصفانہ، اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ 

دیانت دارانہ بات یہ ہے کہ میں نہیں سمجھتا اس جنرل اسمبلی میں امن کے لیے سنجیدہ بات چیت کی شرائط پوری کی گئی ہیں۔ میرے خیال میں فی الوقت فریقین کے مابین ایسی بات چیت کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ 

لیکن ہم یوکرین میں امن یقینی بنانے کے لیے اپنی کوششیں کبھی ترک نہیں کریں گے۔ ہمیں اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی مطابقت سے منصفانہ امن قائم کرنا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یوکرین میں جاری جنگ ارضی سیاسی تناؤ میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے اور یہ تناؤ ہی وہ سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہم موسمیاتی تبدیلی اور کسی موثر عالمگیر انتظام کی عدم موجودگی میں نئی ٹیکنالوجی سے لاحق خدشات جیسے دور حاضر کے مسائل سے موثر طور پر نمٹ نہیں پا رہے۔ 

مصنوعی ذہانت اس کی نمایاں مثال ہے جو انسانیت کے لیے بے پایاں فوائد لائی ہے لیکن یہ ایسے خدشات کا باعث بھی ہو سکتی ہے جن میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔ 

بدقسمتی سے اس وقت دنیا ان مسائل سے نمٹنے کے لیے متحد نہیں ہے اور اسی لیے یوکرین میں جنگ کا خاتمہ بہت ضروری ہے کیونکہ دنیا کے اتفاق و اتحاد کی صلاحیت کو کمزور کرنے میں اس کا بھی نمایاں کردار ہے۔

یو این نیوز: جنرل اسمبلی میں آنے والے عالمی رہنماؤں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو جیسا کہ آپ نے بتایا سول سوسائٹی اور کاروباری دنیا کے بہت سے نمائندے بھی اس اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں اور ان کے علاوہ تعلیمی شعبے، سائنسی برداری اور نوجوانوں کے نمائندوں کی بھی بڑی تعداد آ رہی ہے۔ آپ ان تمام کو کون سا مجموعی پیغام دیں گے؟ 

سیکرٹری جنرل: میں سمجھتا ہوں کہ اگر جنرل اسبملی کو عالمی اور سماجی سطح پر معاشرے کی خواہشات کی عکاس ہونا ہے تو پھر سول سوسائٹی، کاروباری برادری، سائنس کی دنیا سے تعلق رکھنے والوں، نوجوانوں اور خواتین کی تنظیموں کی یہاں موجودگی ضروری ہے۔ 

اگر کبھی حکومتیں معاشرے کی خواہشات کے مطابق نہ بھی چلیں تو تب بھی معاشرہ امن، انصاف اور پائیدار ترقی کے اہداف کی تکمیل چاہتا ہے۔ معاشرہ مسائل کے حل کی موثر پالیسیاں چاہتا ہے تاکہ یہ مسائل انسانیت کا اجتماعی ڈراؤنا خواب نہ بن جائیں۔