انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انٹرویو: غیر معمولی گرمی کارکنوں اور پیداواریت کے لیے نقصان دہ

کارکن تاجکستان میں ایک سڑک تیار کر رہے ہیں۔

آئی ایل او کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث پیداواری صلاحیت میں کمی آتی ہے اور اس حوالے سے 60 فیصد نقصان زرعی شعبے میں ہوتا ہے۔

© ADB/Nozim Kalandarov
کارکن تاجکستان میں ایک سڑک تیار کر رہے ہیں۔

انٹرویو: غیر معمولی گرمی کارکنوں اور پیداواریت کے لیے نقصان دہ

موسم اور ماحول

عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے اعلیٰ سطحی ماہر معاشیات نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتے درجہ حرارت سے کارکنوں کا تحفظ خطرے میں ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کی کم ترین صلاحیت رکھنے والے لوگوں پر اس کے شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے عالمی موسمیاتی ادارے کی جاری کردہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ جولائی اب تک کا گرم ترین مہینہ ہو گا۔ 

'آئی ایل او' کے ماہر نکولا میکھ کے مطابق گرمی کی لہروں سے ناصرف ماحول کو خطرہ ہے بلکہ یہ ایسے ممالک کے لیے اضافی رکاوٹیں بھی پیدا کرتی ہیں جو پائیدار معاشی ترقی، مکمل اور مفید روزگار اور تمام لوگوں کے لیے اچھے کام کی دستیابی ممکن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ پائیدار ترقی کا آٹھواں ہدف بھی ہیں۔

تعمیراتی کارکن فلپائن کی دان ہاری سڑک پر کام کرتے ہوئے۔
© ILO/Bobot Go
تعمیراتی کارکن فلپائن کی دان ہاری سڑک پر کام کرتے ہوئے۔

یو این نیوز: آپ کام پر گرمی کے دباؤ کی کیا تعریف کریں گے جسے 'پیشہ وارانہ ماحول میں گرمی کا دباؤ' بھی کہا جاتا ہے؟ 

نکولس میکھ: پیشہ وارانہ ماحول میں گرمی کا دباؤ ایک ایسی صورتحال ہوتی ہے جس میں کام کرنا یا کم از کم معمول کی طاقت سے کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کا دارومدار صرف درجہ حرارت پر نہیں بلکہ نمی اور سورج کی تابکاری پر بھی ہوتا ہے۔ اس سے کارکنوں کا تحفظ اور صحت خطرے میں پڑ جاتے ہیں کیونکہ ایسے حالات میں انہیں چوٹیں لگنے اور گرمی سے بیمار ہونے کے خدشے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ہیٹی کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں کارکن کپڑے سیتے ہوئے۔
© ILO/Marcel Crozet
ہیٹی کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں کارکن کپڑے سیتے ہوئے۔

یو این نیوز: کتنے درجہ حرارت پر گرمی کا دباؤ شروع ہو جاتا ہے؟ 

نکولا میکھ: اندازوں کے مطابق 24 سے 26 ڈگری سیلسیئس (75 تا 79 فارن ہائیٹ) سے اوپر کام کی صلاحیت میں فرق آنا شروع ہو جاتا ہے۔ جن کاموں میں جسمانی طاقت کی ضرورت پڑتی ہے ان میں 33 تا 34 ڈگری سیلسیئس (91 تا 93 فارن ہائیٹ) پر کارکنوں کی کارکردگی نصف رہ جاتی ہے۔ یہ صورتحال سایہ دار جگہوں اور بعض کارخانوں کے اندر بھی پیش آ سکتی ہے۔ اگر کارخانے میں ماحول کو ٹھنڈا رکھنے کا انتظام نہ ہو اور ملازمین سے بھاری مشینری چلانے یا حفاظتی لباس پہننے کی توقع رکھی جائے تو یہ دباؤ درون خانہ کام کے دوران بھی اپنا اثر دکھا سکتا ہے۔ 

عمومی بات کی جائے تو زراعت اور تعمیرات ان حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبے ہیں۔ آئی ایل او کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث پیداواری صلاحیت میں کمی آتی ہے اور اس حوالے سے 60 فیصد نقصان زرعی شعبے میں ہوتا ہے۔ تاہم گرمی کا دباؤ ایسے تمام کاموں پر اثرانداز ہو سکتا ہے جہاں ملازمین کو سورج کی روشنی میں یا حفاظتی لباس پہن کر گھنٹوں جسمانی مشقت کرنا پڑتی ہے۔

شمال وسطی برکینا فاسو میں خاتون کاشتکار اپنے باغ کو سیراب کر رہی ہیں۔
© WFP/Cheick Omar Bandaogo
شمال وسطی برکینا فاسو میں خاتون کاشتکار اپنے باغ کو سیراب کر رہی ہیں۔

یو این نیوز: گرمی کا دباؤ سب سے زیادہ کون سے لوگوں کو متاثر کرتا ہے؟ 

نکولا میکھ: اس سے وہ لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کی سب سے کم صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ سماجی انصاف اور ممالک کے مابین اور ان کے اندر عدم مساوات میں کمی لانے کا معاملہ ہے۔ 

کام کے دوران وقفوں کی تعداد بڑھانا، پانی تک رسائی میں اضافہ کرنا، کام کے گھنٹوں کو موسمی حالات کے مطابق رکھنا اور کارکنوں سے باری باری کام لینا گرمی کے اثرات کو کم کرنے کے موثر طریقے ہیں۔ کارکنوں کے لباس کو گرمی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے مطابق بنانا، باقاعدگی سے پانی پینا اور طبی معائنے کروانا بھی فائدہ مند ہے۔

ایک گھریلو ملازمہ دلی کے امیر رہائشی علاقے میں گلی کی صفائی کر رہی ہے۔
© ILO/Marcel Crozet
ایک گھریلو ملازمہ دلی کے امیر رہائشی علاقے میں گلی کی صفائی کر رہی ہے۔

یو این نیوز: جن ممالک میں موسم معتدل رہتا ہے وہ حدت کا مقابلہ کرنے کے لیے گرم موسم والے ممالک سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ 

نکولا میکھ: شہادتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ معتدل درجہ حرارت والے ممالک کے لیے بھی حقیقی مسئلہ بنتا جا رہا ہے لیکن مسئلہ ایک جیسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر جنوب مشرقی ایشیا میں یہ مسئلہ سال بھر رہتا ہے۔ یورپ میں یہ ایسا مسئلہ ہے جو بنیادی طور پر موسم گرما میں گرمی کی لہروں کے دوران سامنے آتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے سے نمٹںے کے اقدامات میں یہ فرق بھی مدنظر رکھے جانے چاہئیں۔ گرم ممالک میں اس حوالے سے پائیدار اقدامات پر عملدرآمد کرتے ہوئے ہم معتدل درجہ حرارت والے ممالک میں مخصوص حد تک گرمی پڑنے پر اٹھائے جانے والے اقدامات کی بابت بھی سوچ سکتے ہیں۔ 

ایسے اقدامات میں حکومت کا کردار بہت اہم ہے۔ اس کا تعلق حالات کے مطابق اٹھائے جانے والے اقدامات سے ہے تاہم حکومتیں اپنے ممالک میں گرمی کے دباؤ کے مسئلے سے نمٹںے کے لیے ضابطے کے طریقہ ہائے کار بھی وضع کر سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ کام مہنگا ہو لیکن پیداواری صلاحیت کا نقصان بھی بڑا ہوتا ہے۔

مڈغاسکر اور ایسی ہی دوسری بے قاعدہ معیشتوں میں غربت اور نامناسب حالات کار نمایاں ہوتے ہیں۔
ILO/Marcel Crozet
مڈغاسکر اور ایسی ہی دوسری بے قاعدہ معیشتوں میں غربت اور نامناسب حالات کار نمایاں ہوتے ہیں۔

یو این نیوز: آپ کے خیال میں گرمی کے دباؤ کو حالیہ برسوں میں میڈیا پر اس قدر زیادہ توجہ کیوں ملی ہے؟

نکولا میکھ: جب ہم نے کام کا آغاز کیا تو اس حوالے سے بہت کم تحقیق ہوئی تھی اور میڈیا پر بھی اس مسئلے کا زیادہ تذکرہ نہیں ہوتا تھا۔ اب ہم میڈیا پر ہر جگہ یہ باتیں سنتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ہم اپنے ساتھیوں، دوستوں اور اپنے خاندانوں کو اس مسئلے کا سامنا کرتا دیکھ رہے ہیں۔ 

'آئی ایل او' کی رپورٹ کے بارے میں مزید معلومات جاننے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔ 

وضاحت اور اختصار کی غرض سے اس انٹرویو کی تدوین کی گئی ہے۔