سوہا اور سہیلہ احمد 12 سال کی دو جڑواں بہنوں کا تعلق نیالہ ڈارفر سے ہے. جنگ نے انہیں ماں اور چھوٹے بھائی کے ساتھ مشرقی شہر پورٹ سوڈان کی طرف فرار ہونے پر مجبور کیا. انہوں نے بسوں اور مال بردار ٹرکوں کے ذریعے انتہائی دشوار گزار 2,360 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا. دونوں لڑکیوں، ان کی بیمار ماں اور چھوٹے بھائی کو پورٹ سوڈان کی یونیورسٹی کے بورڈنگ ہاؤس میں عارضی رہائش ملی. یہاں وہ جنگ ختم ہونے کے بعد واپس خرطوم لوٹنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ دونوں لڑکیوں کو ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ میں ان دونوں لڑکیوں کے مضبوط اعصاب اور صبر پر حیران ہوں. ایسےمشکل اور دشوار گزار تجربہ کے بعد بھی ان کے چہرے پہ مایوسی نہیں بلکہ مسکراہٹ ہے. یہ ایک تصویر ہے جسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔
رمہ موسی بورم جنوبی ڈارفر کی ایک یونیورسٹی کی طالبہ ہیں جو پورٹ سوڈان میں بحیرہِ احمر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ وہ فی الحال یونیورسٹی کی رہائشی عمارتوں میں رہ رہی ہیں۔ رمہ اپنے آخری سال میں ہیں. وہ یونیورسٹی مکمل کر کے اپنے خاندان کے پاس واپس جانے والی تھیں۔جنگ سے دو سال قبل وہ اپنے خاندان کو ملنے نہیں جا سکی تھیں۔ جنگ کے بعد بھی ان کا ڈارفر میں اپنے خاندان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہو سکا. انہیں مزید ایک سال اپنے خاندان سے دور رہنا پڑا اور وہ اب بھی پورٹ سوڈان میں ہیں۔ خوش قسمتی سے انہیں آخر کار اپنے خاندان کی خبر مل ہی گئی. ایک نوجوان لڑکی کے لیے اپنے والدین سے ایک سال بات نہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
خرطوم میں 15 اپریل 2023ء کو شروع ہونے والی جنگ نے ہزاروں لوگوں کو جنوبی شہر واد مدنی کی طرف فرار ہونے پر مجبور کیا۔ لوگوں نے سکول اور یونیورسٹی میں طلباء کے رہائشی کمروں کو عارضی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا۔ اس کے بعد جنگ واد مدنی تک پھیل گئی جو سوڈان میں متاثرہ لوگوں کی امدادی سرگرمیوں کا مر کز تھا۔
جنگ کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ خرطوم میں ایسی جگہ رہنے پر مجبور ہیں جہاںکوئی انسان کسی بھی حالات میں رہائش اختیار نہیں کرسکتا. یہ تصویر ایک پولٹری فارم کی ہے جو شمالی مدنی میں واقع ہے۔ 15 سال سے یہ خالی پڑا تھا اور اب بچھوؤں اور سانپوں سے بھرا ہوا تھا۔ سکول اور طلباء کے رہائشی کمروں کو پناہ گزینوں سے بھرنے کے بعد تقریباً 1200 افراد کو اس فارم میں رہنا پڑا جو دریائے نیل کے قریب واقع ہے۔
فارم میں پناہ لینے والوں میں خدیجہ بھی شامل ہیں. خدیجہ سے میری پہلے بھی ملاقات ہوئی تھی جب وہ خرطوم کے الازہری علاقے میں رہتی تھی۔ پولٹری فارم پر اسے اپنی زندگی بچانے کی جدوجہد کرتے دیکھنا ایک انتہائی جذباتی لمحہ تھا۔ ہم دونوں مل کر خوب روئے. پھر میں نے اس کی تصویر کھینچی۔
جو کوئی بھی سوڈان کو جانتا ہے وہ میقوما بچوں کی کہانی ضرور جانتا ہو گا. یہ ان اہم مراکز میں سے ایک ہے جہاں ایسے بچوں کو رکھا گیا ہے جن کے والدین بارے کچھ پتہ نہیں۔ اس مرکز میں بہت سارے نوزائیدہ بچوں کو جمع کیا گیا ہے۔ میقوما مرکز جیل خانے میں واقع ہے جو جنگ کی زد میں رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) اور عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے ان بچوں کو خرطوم سے نکال کر مدنی کے مرکز میں منتقل کرنے میں مدد کی. یہ تصویر ان کی مدنی منتقلی کے وقت کی ہے۔ مگر افسوس جنگ شہری علاقوں تک پھیل گئی. جس کی وجہ سے عالمی تنظیمیں بچوں کو کسی دوسرے محفوظ مقامات پر منتقل کرنے پر مجبور ہوئیںِ. ان بچوں کی انتہائی درد ناک کہانی ہے، کیونکہ انہیں مختلف خاندانوں کے حوالے کرنا پڑا۔
میں نے یہ تصویر سوڈان کے شہر کوستی سے جنوبی سوڈان کے شہر رینک تک کا سفر کرتے وقت کھینچی۔ یہ علاقہ دونوں ملکوں کی سرحد پر واقع ہے. یہ وہ علاقہ ہے جو جنگ سے متاثرہ لوگوں کا عارضی مسکن ہوتا ہے، جہاں انسانی ہمدردی کی تنظیمیں ان کا اندراج کرتی ہیں۔ میں نے جب یہ تصویر لی تو ڈارفر اور کردفان میں سلامتی کی صورت حال انتہائی خراب تھی. یہاں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 3 ہزار لوگوں کی آمد ہو رہی تھی. ان میں سے بیشتر خالی ہاتھ یا بہت کم ذاتی سامان لیے ہوئے تھے . یہ ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں لوگ بہت زیادہ مایوسی کا شکار ہیں ۔